لاہور ( فاروق طارق اور ساتھی) جب 30 ستمبر 2019ءکو ہم نے عوامی ورکرز پارٹی سے علیحدگی اختیار کی تو یہ سوال بار بار پوچھا جاتا رہاکہ ہم نے علیحدہ ہوتے وقت یہ وضاحت نہ کی تھی کہ ہم نے عوامی ورکرز پارٹی کیوں چھوڑی۔ ہم ایک دوسرے کو الزام دئیے بغیر علیحدگی کی اچھی روایات قائم کرنا چاہتے تھے۔ یہ اس لئے بھی تھا کہ ہم ایک نفرت آمیز ماحول پیدا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ہم مستقبل میں ایک صحت مند بحث ومباحثہ کے لئے اچھا ماحول چھوڑ کر جانا چاہتے تھے۔
تاہم ہماری علیحدگی پارٹی کی ٹاپ لیڈرشپ سے سنجیدہ سیاسی اختلافات، حکمت عملی اور اقدامات کی بنیاد پر تھی جو ایک عوامی سطح پر پارٹی کی بنیادیں رکھنے کے لئے ضروری تھی۔ پارٹی قیادت کے ایک اہم رکن نے بار بار مجھے پارٹی کی اندرونی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے درست کہا کہ ”عوامی ورکرز پارٹی بائیں بازو کے گروہوں اور پارٹیوں کا قبرستان بن چکی ہے“۔ ایک اور لیڈر نے کہا کہ ”پارٹی کارکنوں کو بانجھ بنانے میں مہارت رکھتی ہے“۔
یہ اس قسم کا زہریلا ماحول بن چکا تھاکہ علیحدگی کے سوا کوئی اور چارہ کار نہ تھا۔ ہم یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی تمام تر کوششوں کے راستے بند ہونے کے بعد ہی ہم علیحدگی کے ناخوشگوار فیصلے تک پہنچے۔
ہمارے لئے اس پارٹی کو چھوڑنا انتہائی مشکل فیصلہ تھا جس کی تعمیر کے لئے ہم تمام نے دن رات ایک کی تھی۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ ہمارا 80 فیصد سے زیادہ وقت پارٹی کی اندرونی بحثوں، الزامات، جوابی الزامات اور کشمکش میں ضائع ہو رہاتھا۔ وقت کا یہ ضیاع پاکستان میں ایک حقیقی مارکسی پارٹی کی تعمیر میں ہماری توانائیوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا۔
پچھلے تین سال سے خصوصی طور پر فیڈرل اور ایگزیکٹو کمیٹی کے ہر اجلاس کا زیادہ تر وقت پارٹی کی تعمیر کے لئے ضروری سیاسی تناظر اور حکمت عملی کی تعمیر پر صرف ہونے کی بجائے اندرونی اختلافات کو حل کرنے میںلگ رہا تھااور ہر دفعہ ایک نیا مصالحانہ حربہ ان کو دور کرنے میں استعمال ہوتا تھا۔ کمیٹیوں کی تشکیل اس کا ایک اہم حصہ ہوتا تھا جو اختلافات کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرتیں۔ اس بات پر بہت زور دیا جاتا تھا کہ اختلافات پبلک میں نہ جائیں تا کہ یونٹی کا تاثر قائم رہے۔
مسائل کا آغاز
جب نومبر 2012ءمیں تین پارٹیوں عوامی پارٹی، ورکرز پارٹی اور لیبر پارٹی پاکستان نے انضمام کا فیصلہ کیا تو صرف لیبر پارٹی نے نئے نام میں اپنے پرانے نام کو شامل کرنے پر اصرار نہ کیا تھا۔ عوامی پارٹی اور ورکرز پارٹی دونوں کی ضد پر ایک مصالحانہ نام جس میں دونوں کو خوش کیا گیا ”عوامی ورکرز پارٹی“ پر رضامندی کی گئی۔
عوامی ورکرز پارٹی کی فاونڈنگ کانگرس سے قبل ہماری لیبر پارٹی پاکستان نے 10-11 نومبر 2012ءکو اپنی آخری کانگرس میں پارٹی کو باضابطہ طور پر ختم کرنے اور نئی پارٹی میں ضم کرنے کا جب میجارٹی فیصلہ کیا تو کئی سینئر ساتھیوں نے اس نئی پارٹی میں شمولیت سے انکار کر دیا تھا۔ انکا موقف تھا کہ دوسری دونوں پارٹیاں پاکستان میں ایک نئی انقلابی پارٹی کی عوامی سطح پر بنیادیں رکھنے کے لئے ضروری توانائیوں سے بھرپور نوجوان قیادت کو پروموٹ نہیں کرےںگی۔
انضمام کا تمام عمل مکمل ہونے میں چھ ماہ کا عرصہ بھی نہ لگا۔ تینوں پارٹیوں کی انضمام کمیٹیوں کے چند اجلاس منعقد ہوئے مگر تمام پارٹیوں کی مشترکہ ممبر شپ کو یہ موقع نہ مل سکا۔ یہ انتہائی عجلت کیوں؟ اس وقت ایک کشیدہ سیاسی صورتحال تھی۔ مذہبی جنونیت کا ابھار تھااوربایاں بازو سیاسی علیحدگی کا شکار تھا۔ یہ انضمام بائیں بازو کو زندہ رکھنے کا ایک دفاعی قدم تھا۔
تاہم یہ انضمام پاکستان میں والدین کی جانب سے بچوں کی عمومی شادیوں کے انتظامات کی طرح تھا۔ جن کی شادی ہونی ہوتی ہے وہ تو ایک دوسرے کوشاید دیکھ تو لیتے ہیں، کبھی کبھار ملنے کا موقع بھی مل جاتا ہے مگر وہ شادی سے پہلے ایک دوسرے کے جاننے کے تمام ضروری مواقعوں سے محروم ہوتے ہیں۔ ایک طرح سے یہ انضمام ایک سیاسی جوا تھا۔
انضمام کی تاریخ
انضمام کرنے والی تینوں پارٹیوں میں سے ایک ورکرز پارٹی تو تعمیر ہی کامیاب اور ناکام انضمامات سے ہوئی تھی۔ اگرچہ اس پارٹی میں پاکستان کے معروف بائیں بازو کے راہنما شریک تھے مگر اس کی پاکستان کے کسی حصے میں کوئی عوامی بنیادیں نہ تھیں۔ اس کے زیادہ تر راہنما سابقہ سوویت یونین کی سیاسی لائنوں کی حمایت کرتے تھے۔
سوویت یونین کے زوال کے بعد یہ انضمامات کی ایک سیریز سے گزرے تھے۔ 1972ء میں سوشلسٹ پارٹی سے آغاز کرنے والی یہ پارٹی مختلف اندرونی بحرانوں سے نپٹنے کے لئے انضمام کو ایک حکمت عملی کے طور پر بائیں بازو کے اتحاد کے طور پر پیش کرتی رہی۔ اور کبھی ورکرز پارٹی تو کبھی عوامی جمہوری پارٹی، نیشنل ورکرز پارٹی اورورکرز پارٹی پاکستان کی نام سے انضماموں میں مصروف رہی۔ یہ دراصل انضماموں کے ذریعے ہی زندہ تھی۔
عوامی ورکرز پارٹی کے انضمام میں شریک تیسری پارٹی عوامی پارٹی تین گروپوں کے انضمام سے ایک سال قبل ہی تعمیر ہوئی تھی۔ اس پارٹی میں سابقہ پروفیسر گروپ، ماوسٹ اور کمیونسٹ پارٹی کے کچھ ممبران شامل تھے۔
عام انتخابات میں شرکت
انضمام کے چند ماہ بعد ہی 2013ءکے عام انتخابات میں شرکت بارے ایک سنجیدہ بحث ومباحثے کا آغاز ہوا۔ اپنے آغاز سے ہی سابقہ ورکرز پارٹی نے کبھی سنجیدہ انداز میں عام انتخابات میں حصہ نہ لیا تھا۔ 1988ء، 1990ء، 1993ء، 1997ء اور 2002ءکے عام انتخابات میں انہوں نے ایک دو کے علاوہ امیدوار کھڑے ہی نہ کئے تھے۔ 2013ءکے عام انتخابات سے قبل سابقہ ورکرز پارٹی کے لیڈرز عوامی ورکرز پارٹی کے امیدواروں کے لئے ٹکٹ جاری کرنے کے لئے سخت قوائد وضوابط کی داعی تھی۔ انکی دلیل تھی کہ وہ انتخابات کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جبکہ عوامی پارٹی اور لیبر پارٹی کے ساتھی عام انتخابات میں زیادہ سے زیادہ امیدواروں کے ساتھ اترنا چاہتی تھیں۔ ان انتخابات میں عوامی ورکرز پارٹی کے امیدواروں کا تعلق انہی دو پارٹیوں سے تھا۔ اگرچہ پارٹی کا کوئی ساتھی جیت نہ سکا لیکن چند حلقوں میں پارٹی معقول ووٹ لینے میں کامیاب ہوئی۔
انتخابات کے بعد اس ایشو پر عوامی پارٹی کے چند ساتھی عوامی ورکرز پارٹی سے مستعفی ہو گئے۔ ان میں فیڈرل سینئر نائب صدر اور صوبہ پنجاب کے پارٹی صدر بھی شامل تھے۔ وہ بعدازاں نیشنل پارٹی میں شامل ہو گئے۔
پہلی کانگرس سے قبل
جب عوامی ورکرز پارٹی کی ستمبر 2014ء میں پہلی کانگرس کا اعلان ہوا تو ضلعی اور صوبائی کانگرسوں کا انعقاد کیا گیا۔ اور سابقہ ورکرز پارٹی نے اپنی چالوں کے ذریعے پارٹی کنٹرول لینے کی باضابطہ کوششوں کا آغاز کر دیا۔ ”پارٹی کنٹرول“ انکی نمبر ون ترجیع بن گئی۔ لیبر پارٹی کے ساتھیوں کو شعوری طور پر پارٹی ڈھانچے سے دور رکھنے کے لئے سرتوڑ چالیں چلی گئیں۔
یہ واضح ہو گیا کہ اس انضمام کا بنیادی مقصد سابقہ ورکرز پارٹی کا اپنے گروپ کو مضبوط کرنا تھا۔ انہوں نے انضمام کے بعدبھی کبھی اپنا اندرونی ڈھانچہ ختم نہ کیا تھااورفارمل اجلاسوں سے قبل انکے گروہی اجلاس منعقد ہوتے تھے اور جب فارمل اجلاسوں میں ان میں سے کوئی ایک حکمت عملی پیش کرتا تھا تو گروہ کے باقی ساتھی طوطوں کی طرح رٹا رٹایا سبق دھراتے تھے۔
سرمایہ داری میں خوش فہمیاں
یہ صرف تنظیمی ایشوز نہ تھے جن پر اختلافات تھے بلکہ ان کے ساتھ ہمارے اہم سیاسی اختلافات بھی پارٹی تعمیر کے دوران ابھر کر سامنے آئے۔ یہ سرمایہ داری اور سی پیک کے ایشوز پر زیادہ واضح ہوئے۔
عوامی ورکرز پارٹی کی قیادت کی اکثریت نے سی پیک کو پاکستان میں سرمایہ داری کی تعمیر کا ایک اہم موقع گردانا۔ ان کے نزدیک ایک ”کمیونسٹ چین“ پاکستان میں سرمایہ داری کو مضبوط کر سکتا ہے۔ جب ہم نے اس خوش فہمی کی مخالفت کی تو مصالحانہ طور پر سی پیک بارے ایک کنفیوژ بیان جاری کیا گیا جو نہ تو اس کی حمایت تھی اور نہ مخالفت۔
سابقہ ورکرز پارٹی کا ایک اور منفی پہلو ان تحریکوں اور پہلوﺅں کی حمایت سے انکار تھا جو سرمایہ داری کی بنیادوں، فیوڈل تعلقات کا استعمال یا سماج کی ملیٹرائزیشن کو بے نقاب کرتی تھیں۔ یوں اسٹیبلشمنٹ کی کھلے بندوں مخالفت سے پرہیز کیا جاتا تھا۔ وہ ضابطوں میں جکڑا سرمایہ داری نظام چاہتے تھے۔ سرمایہ داری کی ایسی شکل جو محنت کشوں اور کسانوں کے حقوق کا خیال رکھے۔ بار بار کے تاریخی تجربوں سے واضح تھا کہ غیر ترقی یافتہ معاشروں میں اس قسم کی سرمایہ داری کی تعمیر کی امید رکھنا ایک دھوکہ ہے۔
قومی سوال ایک اور ایشو تھا جہاں ہماری حکمت عملی میں فرق ابھر کر سامنے آئے۔ ہم ہمیشہ مظلوم اقوام کی اپنے حقوق اور استحصال کے خلاف آواز بلند کرنے کی غیر مشروط حمایت کرتے رہے ہیں۔ سابقہ لیبر پارٹی کا یہ ایک خاصہ تھا کہ وہ پنجاب سے مظلوم اوراستحصال زدہ اقوام کے لئے عملی طور پر آواز بلند کرتے تھے۔ عوامی ورکرز پارٹی کی یہ ترجیع نہ بنی۔
جب جون 2014ءمیں ملٹری آپریشن ضرب عضب لانچ کیا گیا تو 43 میں سے صرف ہم تین نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس فوجی آپریشن سے مذہبی جنونیت کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔ باقی تمام نے یا تو اس کی مخالفت کی یا اس پر خاموشی اختیار کی، یہ بائیں بازو کی ایک سیاسی جماعت کی جانب سے سیاسی دیوالیہ پن کی انتہا تھی جو یہ اندازہ نہ کر سکی کہ مذہبی جنونیت یا دہشت گردی فوجی آپریشنوں سے ختم نہیں ہو سکتی۔ پارٹی اکثریت نے فوجی آپریشن کی مخالفت نہ کی کیونکہ ان کے نزدیک کوئی اور متبادل نہ تھا۔
تحریکوں کی تعمیر کی مخالفت
جب ہم نے بابا جان کی رہائی تحریک، اوکاڑہ کسانوں کی جدوجہد، مسنگ پرسنز کی بازیابی مہم، پشتون تحفظ موومنٹ کے سول رائیٹس کی حمایت، فیصل آباد لیبر قومی موومنٹ، طلبہ کی ریاستی کٹوتیوں کے خلاف جدوجہد یا اس جیسی دیگر تحریکوں کی حمایت کی بات کی تو سابقہ ورکرز پارٹی کی جانب سے ان پر سوال کھڑے کر دئیے گئے۔ وہ انکی قیادت پر تنقید، انہیں این جی او کی جانب سے سپانسر کرنے یا ”سازشی نظریہ“ کہہ کر پارٹی کو ان سے دور رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔
فیمینزم ایک اور ایشو تھا جس پر پارٹی کے اندر شدید اختلافات تھے۔ سابقہ ورکرز پارٹی کی لیڈرشپ کی اکثریت کا خیال تھا کہ طبقہ اور پارٹی ہی عورتوں پر جبر کو ختم کر سکتی ہے۔ ان کے نزدیک فیمینزم ایک مغربی خیال ہے، اس ایشو پر پارٹی کی بعض عورتوں نے ایک زبردست جدوجہد کی اور ہم انکی حمایت میں تھے جب انہوں نے عورتوں کی ایک جاندار آزاد تنظیم ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کی تشکیل کی۔ یہ جدوجہد دو سال جاری رہی۔ اسوقت جبکہ پاکستان بھر میں عورت مارچ میں ہزاروں عورتیں شامل تھیں، پارٹی کی چند عورتیں جو اس کے خلاف تھیں عورتوں کے علیحدہ ایونٹس منظم کرتی رہیں۔
جب ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کی راہنماوں نے پارٹی کی ایک انٹرنل دستاویز کا زبردست ڈرافٹ لکھا جو جنسی تشدد اور ہراسانی بارے تھا۔ اس کی سابقہ ورکرز پارٹی کے تمام راہنماوں نے مخالفت کی اور یہ دستاویز واپس لینے پر عورتوں کو مجبور کر دیا۔ اس طرح پارٹی اس موقع سے محروم ہو گئی جو شاید اس خطے میں پہلی پارٹی ہوتی جس کی عورتوں کی جنسی ہراسانی کے خلاف ایک انٹرنل پالیسی دستاویز ہوتی۔
عوامی تنظیموں کی تعمیر بارے پارٹی کی فیڈرل کمیٹی کی اکثریت اس بات میں خاص دلچسپی رکھتی تھی کہ اس کو اپنے کنٹرول میں کیسے رکھا جائے۔ یہ سب محنت کشوں، کسانوں، نوجوانوں اور عورتوں کی عوامی تنظیموں بارے سچ تھا۔ وہ ایک رد انقلابی دور میں ایسی حکمت عملی چاہتے تھے جو شاید انقلاب سے پہلے والے دور میں درست ہوتی۔
فاروق طارق کو ایک نوٹس جاری کیا گیا جب اس نے کراچی میں غائب کئے گئے پروفیسرریاض کی بازیابی کا مطالبہ کرنے کے لئے لاہور میں ایک چھوٹے سے مظاہرے میں شرکت کی۔ اندرونی طور پر ایک شدید احتجاج کے بعد یہ نوٹس واپس لیا گیا۔ یہ ایک ایسا کیس تھا جہاں متفقہ طور پرطے تھا کہ غائب کئے جانے والوں کی بازیابی کی جدوجہد کی جائے گی۔ چنانچہ ایسی ہر پہل کی مخالفت کی گئی اور اس پر مشورہ نہ کرنے کا بہانہ کیا گیا۔
”پارٹی کی سیاسی زندگی کا ہر پہلو کنٹرول ہونا چاہئے“ کی حکمت عملی راہنماوں کی اکثریت نے اختیار کی ہوئی تھی۔ انہوں نے فاروق طارق کے ایک ایسے مضمون پر بھی اعتراض کیا جس میں پاکستان میں بائیں بازو کی تاریخ رقم تھی، انکے نزدیک تاریخ بھی انکی مرضی کے مطابق لکھی جائے، وہ تنقیدی سوچ کے عمومی مخالف تھے۔
اس قسم کے واقعات کی ایک طویل فہرست تھی اور ہم اندرونی تنازعات اور بے کار بحثوں میں وقت ضائع کر رہے تھے۔ جس سے ایک ایسی ٹیم کی تشکیل نہیں ہو رہی تھی جو پارٹی کو یکسوئی سے آگے بڑھا سکے۔
اس صورتحال سے تنگ آ کے ہمارے نوجوان ساتھیوں نے 2017ءکے آغاز میں ہی عوامی ورکرز پارٹی کو چھوڑ کر آزادانہ پہلوں سے نوجوان اور طلبہ تحریک کو کامیابی سے منظم کرنا شروع کر دیا تھا۔ ہم ان نوجوانوں کی کھلی حمایت کرتے تھے۔ یہ پارٹی کے لئے ایک اور ایشو بن کر سامنے آیا۔
چنانچہ ہم نے اس پارٹی کو خیر آباد کہہ دیا اور نئی جہتوں اور پہلوﺅں کو منظم کرنے میں وقت لگانے لگے۔ نوجوانوں کی تنظیموں اور تحریکوں نے اس دور میں وہ کام کیا جو کئی دہائیوں سے نظر نہ آیا تھا۔ ہم ان نوجونوں کی جدوجہد میں کھل کر شریک تھے۔ 29 نومبر کو لاہور میں طلبہ مزدور یک جہتی مارچ اس ضمن میں ایک تاریخی مارچ تھا۔ ایسے مارچ ملک بھر میں بھی ہماری حمایت اور بغیر حمایت کے منظم کئے گئے تھے۔
کیا کیا جائے؟
پارٹی چھوڑنے کے بعد سے ہم بائیں بازو کی تحریکوں اور گروپوں کو منظم کرنے میں مصروف ہیں۔
موجودہ رد انقلابی دور میں کس قسم کی پارٹی /تحریک تعمیر کی جائے؟ آج دائیں بازو کا جواب دائیں بازو ہی دے رہا ہے، یہی اس دور کا خاصہ ہے۔
ہمیں معلوم ہے کہ ہمیں ایک ایسی پارٹی/تحریک کی ضرورت ہے جو سرمایہ داری، جاگیرداری، سامراجیت، مذہبی جنونیت اوراسٹیبلشمنٹ مخالف ہو۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہم کس کے خلاف ہیں؟ مگر اس کے متبادل پر بحثیں جاری ہیں۔
ہمیں ایک ایسی پارٹی/تحریک کی ضرورت ہے جو سوشلسٹ، ریڈیکل، فیمینسٹ اور ماحول دوست پالیسوں کو فروغ دیتی ہو۔ ایسی پارٹی جو معاشرے کے سب سے زیادہ استحصال زدہ طبقات کو مضبوط کرنے اور انکی جدوجہد میں شریک ہونے کے لئے ہر وقت تیار ہو۔ ایسی پارٹی جو نوجوانوں اور محنت کشوں کی تحریک کی تعمیر کرتی ہو، جو مذہبی اقلیتوں کے ساتھ مکمل کریکجہتی کرتی ہو۔
موجودہ وقت میں پچھلے چند سالوں سے ہم سب کی جانب سے طلبہ اور نوجوانوں کی تعمیر میں شعوری کوششوں اور جدوجہد کے نتیجہ میں آج پاکستان بھر میں بائیں بازو کی نئی لہر نظر آ رہی ہے۔ ہم نے بائیں بازو کے براڈر اتحاد سے ماضی کے چند سالوں سے کامیاب فیض امن میلہ اور جالب عوامی میلوں کے انعقاد سے ہزاروں کو موبلائز کیا ہے جو آج سرمایہ داری، جاگیرداری، سامراجیت اور مذہبی جنونیت کے خلاف نبرد آزما ہیں اور ایک سوشلسٹ پاکستان کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ سلسہ جاری رہے گا۔
پارٹی چھوڑتے وقت ہم نے یہ بیان جاری کیا تھا۔