ان کی انقلابی نظمیں بھارت کے بائیں بازو کے جلسوں میں آج بھی مقبول عوامی ترانوں کے طور پر گائی جاتی ہیں۔

ان کی انقلابی نظمیں بھارت کے بائیں بازو کے جلسوں میں آج بھی مقبول عوامی ترانوں کے طور پر گائی جاتی ہیں۔
ایک نئے جنم کی امید لئے
گذشتہ روزکہیں ٹرانسفر ہو گئے”انتقال کو انگریزی میں ٹرانسفر ہی کہتے ہیں نا“۔
اس معروضی پس منظر میں اس سال یوم مئی منایا جا رہاہے کہ 1930ء کی دہائی کی کساد بازاری اب دوبارہ ہر ایجنڈے پر واپس آ گئی ہے۔ یہ یوم ِمئی صحت کی سلامتی اور ملازمتوں کے تحفظ کے لئے منایا جا رہاہے۔ اس صورت حال میں ایک محنت کش کا یہ جملہ بہت کچھ عیاں کر دیتا ہے، ”کرونا مارے نہ مارے، بھوک ہمیں ضرور مار دے گی“۔
وبا سے مرنا بھوک سے مرنے سے بہتر سمجھاجا رہا ہے۔ اس کیفیت میں جاری لاک ڈاؤن کے باعث روایتی طریقے سے یوم مئی نہیں منایا جا سکتا۔
سرمایہ داری نظام میں حکومتیں عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی بجائے ہتھیاروں اور دیگر جان لیوا اقدامات پر تو اربوں ڈالر خرچ کرنے کو تلی ہوتی ہیں مگر صحت کے میدان میں بالکل فارغ ہیں۔
جو ملک ستر سال سے دیوالیہ پن کا شکار ہو اسے اکنامکس کے ڈیپارٹمنٹ تو کھولنے ہی نہیں چاہئے تھے۔ ویسے بھی جب ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف اتنے پڑھے لکھے ماہرین ِمعاشیات ہر طرح کے ٹیکس لگانے اور مہنگائی کرنے کے لئے ہمارے ہاں بھیج دیتے ہیں تو اکنامکس کے شعبہ جات بند کرنے میں ہرگز کوئی حرج نہیں ہو گا۔
”جرم معاشرے میں موجود مسائل کے خلاف احتجاج ہوتا ہے۔ جرائم کی وجوہ ختم کرنے کی ضرورت ہے۔“
۔ آپ پاکستان کے کسی بھی سیاستدان کا نام لے لیں تو وہ چینی کی صنعت کا سرمایہ دار نکلے گا۔ اس دھندے میں پنجاب کا تقریباًہر سیاسی خاندان، لاہور کے شریفوں سے لے کر گجرات کے چودھریوں تک اور سرگودھا کے چیموں سے لے کر جہانگیر ترین تک شامل ہیں۔ یہاں ہمایوں اختر اور اس کے اہل خانہ کا نام مت بھولیں۔
آخر میں التجا ہے کہ اب جب آ پ دعا کریں تو کوشش کریں کہ دعا ہی ہو، کردار کشی، باعثِ دل آزاری اور مبالغہ آرائی نہ ہو۔