ہمارے سیاسی حکمرانوں کو اس حقیقت کا علم ہوتا ہے کہ وہ عوام کے حقیقی نمائندے نہیں ہیں (خاص طور پر موجودہ حکمرانوں کو) اور وہ کسی کی ’نظر ِکرم‘ کی وجہ سے اس عہدے پر براجمان ہیں۔

ہمارے سیاسی حکمرانوں کو اس حقیقت کا علم ہوتا ہے کہ وہ عوام کے حقیقی نمائندے نہیں ہیں (خاص طور پر موجودہ حکمرانوں کو) اور وہ کسی کی ’نظر ِکرم‘ کی وجہ سے اس عہدے پر براجمان ہیں۔
’میں لوگوں کو اس وقت روک نہیں سکتا کیونکہ انھیں تکلیف پہنچی ہے۔ وہ اسی درد کو محسوس کر سکتے ہیں جس سے میں گزر رہا ہوں۔‘
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق مزدوروں سے بلا معاوضہ اوور ٹائم لیا جاتا ہے، بیماری کی چھٹی نہیں دی جاتی اور کام کے دوران کسی قسم کا وقفہ کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔
کون ہے دوشی
حکمرانوں کی مسلسل یہ کوشش ہوتی ہے کہ انقلابی واقعات، باغی شخصیات، بغاوتوں، مزاحمتوں اور عوامی شہیدوں کا تاریخ کی کتابوں سے ذکر گول کر دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مطالعہ پاکستان میں بھگت سنگھ، سبھاش چندر بوس یا حسن ناصرکا ذکر کبھی نہیں ملے گا۔
21 سال گزر گئے میں آج تک منتظر ہوں کہ پاکستان میں کوئی ایسی شے ایجاد ہو جس سے انسانیت کی خدمت کے ساتھ ساتھ روزگار بھی ملے۔
اپنی دولت کے بل بوتے پر اس نے اس ملک کی سیاست، عدالت اور فوج کو مٹھی میں لے رکھا ہے۔
ان کی شخصیت کا سب سے مسحور کن پہلو یہ تھا کہ وہ ہر دم مسکراتے ہوئے نظر آتے۔ جب تقریر کے لئے اسٹیج پر آتے (اور بلا شبہ ایک بہترین عوامی مقرر تھے) تو یہ مسکراہٹ غائب ہو جاتی۔ ہاتھ ہلا ہلا کر، پر جوش مگر مدلل انداز میں تقریر کرتے۔ مزدور تحریک کا انسا ئیکلوپیڈیا تھے۔
ہمارے حکمران یقین ِکامل رکھتے ہیں کہ ڈیموں جیسے بڑے منصوبے، قرضوں کی واپسی اور حتیٰ کہ پورے ملک کو بھی چندے سے چلایا جا سکتا ہے۔
وہ عمومی طور پر گلگت بلتستان کے خطے کے باسیوں کے حقوق کی بلند آواز تھا خصوصاً نلتر میں زمین ہتھیانے کے خلاف آواز اٹھانے میں ایک اہم کرادر فرجاد کا تھا۔ فرجاد کا قصور شاید اس کی دھرتی کے ساتھ بے لوث محبت ہے۔