صبح آئے گی، ا سے آنا ہے

صبح آئے گی، ا سے آنا ہے
کرونا وبا نے جہاں انسانوں کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے وہاں اس نے سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کو مزید خستہ حال بنا دیا ہے۔
اپنی آخری تقریر میں بھٹو نے امریکہ سے (غلط طور پر) کہا تھا کہ ”پارٹی از ناٹ اوور۔“ امریکہ، فوجی آمریت اور مراعات یافتہ طبقوں نے محنت کش طبقے کی پارٹی پر 1977ء میں جو شب خون مارا تھا، بھٹو کے پھانسی گھاٹ پر بنا ہوا میکڈونلڈز اور اس میں کولا کے ساتھ بے مزابرگر کھانے والے بے فکرے مڈل کلاسئے اس شب خون کا تسلسل ہیں۔
تو کس لئے ہوں خیمہ زن
ویکسین کے علاؤہ اس وائرس کو انسانی جسم کے اندر مارنے کا کوئی بھی طریقہ نہیں۔
آج انسانیت کو بچانے اور کورونا جیسی وبائی امراض سے لڑنے کا واحد راستہ منصوبہ بند معیشت پر مبنی سماج کا قیام ہے۔
بغیر کسی معقول وجہ کے کسی کو نہیں نکالا جا سکتا جبکہ پیداوار میں کمی یا کام کا نہ ہونا معقول وجہ تسلیم نہیں کی جائے گی۔
میں امید کرتی ہوں کہ لوگوں میں یکجہتی اور مساوات کے لئے بیداری پیدا ہو گی۔ سڑکوں پر ٹریفک کے علاوہ فضائی ٹریفک میں کمی ہونے کی وجہ سے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ چین کے بعض علاقوں میں ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے آسمان نظر نہیں آتا تھا۔ وہاں اب آسمان نظر آنے لگا ہے۔ ممکن ہے کہ لوگ یہ سوچیں کہ دنیا ایک کشتی ہے اور جب یہ ڈوبے گی تو سب ڈوبیں گے۔
امریکہ کے برعکس جہاں اشیائے ضرورت کے حصول کے لئے بھگدڑ جیسی صورتِ حال نظرآتی ہے، اٹلی میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ سپر مارکیٹس کھلی ہیں اور چند چیزوں کے علاوہ روز مرہ کی تمام اشیا دستیاب ہیں۔ جہاں پاکستان سمیت دوسرے ملکوں میں اشیا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، وہاں اٹلی میں کھانے پینے کی اشیا میں پچاس فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
حالیہ بحران نے روایتی تعلیمی طریقہ کار کی کلی کھول دی ہے۔