پاکستان کی ریاستی اور سیاسی مشینری اس سے زیادہ نااہل، ناقابل اور بیکار کبھی تاریخ میں نہیں نظر آئی۔ اس بحران نے اسے بالکل ہی ننگا کردیا ہے۔ اس بحران میں ریاست کا کردار ایک دور کھڑے تماشائی سے زیادہ نہیں ہے۔ مکمل معاشی لاک ڈاؤن ہوئے 20 سے زائد دن گزر چکے ہیں لیکن وزیر اعظم پاکستان نے”گھبرانا نہیں ہے“ کے کھوکھلے نعرے سے علاوہ کوئی عملی اور ٹھوس کام نہیں کیا۔
Month: 2020 اپریل
کرونا کے ہاتھوں عالمی معیشت کو 5 ٹریلین ڈالرکا نقصان ہوگا
اُدھر، جے پی مارگن کا کہنا ہے کہ کرونا بحران سے شروع ہونے والی کساد بازاری سے 5.5 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہو گا۔
عالمی لاک ڈاؤن سے 2.7 ارب مزدور متاثر
یہ 1.25 ارب مزدور عالمی مزدور فورس کا 38 فیصد ہیں۔
امریکہ: سوشلسٹ امیدوار برنی سینڈرز صدارتی دوڑ سے دستبردار
انہیں ایک طرف ڈیموکریٹک پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا سامنا تھا۔
ٹرمپ کی دھمکی ملتے ہی مودی نے گھٹنے ٹیک دئے
جو ممالک مودی پر دباؤ ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان ممالک کو تو اس دوا تک رسائی حاصل ہو گی لیکن کمزور ممالک اس سے محروم رہیں گے۔
کرونا بحران کے خلاف پاکستانی بائیں بازو کی حکمت عملی کیا ہونی چاہئے؟
زدوروں اور محنت کشوں کے ساتھ مل کر اور اپنی مدد آپ کے تحت بنائی گئی کمیٹیوں کی تشکیل شروع کرنا ہوگی ہمیں اس بحران سے نمٹتے ابھی بھی بہت دیر ہو چکی ہے۔ ایک طرف ہمیں اپنی کمیٹیوں کے ذریعے کرونا جیسی وبا سے بچنے کے لئے بڑے پیمانے پر آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے ساتھ ہی ساتھ پیداواری عمل پر مزدور طبقات کی اجارہ داری، خواراک اور وسائل کی منصفانہ تقسیم، صحت اور ادویات پر محنت کشوں کے کنٹرول کے لئے سیاسی تربیت کی ضرورت ہے۔
کورونا وبا اور طبقاتی تفریق
محنت کش ہی اس بربریت کے نظام سے انسانیت کی نجات ممکن بنا سکتے ہیں۔
وینزویلا: کورونا وبا اور سامراجی وار!
انقلاب کی پیش قدمی میں سب سے بڑی رکاوٹ سوشلسٹ پارٹی کی اصلاح پسند قیادت اور صدر مادورو کی مصالحت کی روش ہے۔ منڈی کی معیشت اور ایک منصوبہ بند معیشت دو متضاد چیزیں ہیں اور بیک وقت ان دو متضاد نظاموں کو چلانا ناممکن ہے۔
مذہبی اجتماعات: پنجاب میں کرونا پھیلنے کی بڑی وجہ
اس صورت حال کے اصل قصور وار وہ مذہبی رہنما ہیں جو ان اجتماعات کے ذمہ دار تھے جبکہ بنیادی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
کرونا بحران: 2 ہفتے میں 1 کروڑ امریکی بے روزگار
مزدور جب بے روزگاری کے بعد کسی نوکری پر واپس آتے ہیں تو ان کی نئی آمدن گذشتہ آمدن سے اوسطً بیس فیصد کم ہو جاتی ہے۔