”بظاہر میں نے ایک دہشت گرد کی طرح کام کیا ہے، لیکن میں دہشت گرد نہیں ہوں۔ میں پوری طاقت کے ساتھ اعلان کرتا ہوں کہ میں دہشت گرد نہیں ہوں اور شاید اپنے انقلابی کیریئر کے آغازکے سوا کبھی تھا بھی نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم ان طریقے سے کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ سوچ سمجھ کر میری رائے ہے کہ بم ہمارے مقصد کو پورا نہیں کر سکتے۔ یہ ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن کی تاریخ سے ثابت ہے۔ بم پھینکنا نہ صرف بیکار ہے بلکہ نقصان دہ بھی ہے۔ ان کا استعمال صرف بعض مواقع پر کرنا ہے۔ ہمارا بنیادی مقصد محنت کش عوام کو متحرک کرنا ہے۔ فوجی ونگ کو خصوصی مواقع پر استعمال کیلئے جنگ کا مواد اکٹھا کرنا چاہیے۔“
Month: 2024 مارچ
بھگت سنگھ: وہ تاریخ جو مٹ نہیں سکتی!
بھارتی حکمران طبقے کی جانب سے بھگت سنگھ کی بالواسطہ کردار کشی یہاں کی نسبت زیادہ افسوسناک ہے۔ یہ تاریخ کا المیہ ہے کہ کچھ مہینے پہلے درندہ صفت ہندو بنیاد پرست اور بھارتی سرمایہ داروں کے محبوب سیاستدان نریندرا مودی کو بھگت سنگھ کی آپ بیتیوں پر مبنی ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں خصوصی مہمان کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اپنی شہادت کی سات دہائیوں بعد بھی بھگت سنگھ نوجوانوں میں مقبول ہے اور دایاں بازو اسی مقبولیت کو کیش کروانے کی کوشش کررہا ہے۔ دائیں بازو کی طرح کانگریس اور اصلاح پسند بایاں بازو بھی ’’تبدیلی‘‘ کی لفاظی اور سیاسی شعبدے بازی کے لئے بھگت سنگھ کے نام کا سہارا لیتا ہے۔ لیکن حکمران طبقے کے مختلف حصوں کی یہ بیہودہ چالبازیاں بھگت کے حقیقی نظریاتی ارتقا پر پردہ نہیں ڈال سکتی ہیں۔ موت کے وقت وہ اپنی سیاسی زندگی کے اس نظریاتی نچوڑ اور نتیجے پر چٹان کی طرح قائم تھا کہ برصغیر کے عوام کی نجات کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔
بھگت سنگھ: بہروں کو سنانے کے لئے اونچا بولنا پڑتا ہے
ننھے بھگت سنگھ نے بڑے جذبے کے ساتھ خود کو گاندھی کی تحریک عدم تعاون میں جھونک دیا۔ اسکی آزادی کا خواب اس وقت چکنا چور ہو گیا، جب گاندھی اچانک تحریک سے دستبردار ہو گئے۔ بھگت سنگھ اپنے (آزادی کے) خواب کو اپنے طریقے سے پورا کرنے کیلئے بڑا ہوتا ہے۔ وہ چندر شیکھر آزاد کی سربراہی میں ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن میں شامل ہوتا ہے اور اپنے ساتھیوں کو اپنی تنظیم کا نام بدل کر ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن (ایچ ایس آر اے)رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ وہ کانگریس کی سخت مخالفت کرتا ہے اور خبردار کرتا ہے کہ اگر کانگریس کے طریقے سے آزادی جیتی گئی تو نام نہاد آزاد ہندوستان میں استحصال کا راج ہوگا اور ایک وقت آئے گا، جب ہندوستان فرقہ وارانہ انتشار کی سرزمین کی صورت میں تنزلی کا شکار ہو جائے گا۔
’کوپ 28‘ اور ”ماحول دوست سرمایہ داری“ کا فریب
2023ء میں عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے اور کرہ ارض کا اوسط درجہ حرارت صنعتی عہد سے قبل کی سطح سے تقریباً 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تک پہنچ گیا۔ 2023ء کے دوران اوسط عالمی درجہ حرارت پچھلے 100,000 سالوں میں کسی بھی وقت سے زیادہ تھا۔
اسلام سے دوری نہیں، بیرونی قرضوں کی وجہ سے مصر برطانیہ کی کالونی بنا
یہ تاریخ دانی سے مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ افریقہ اور ایشیا پر استعماری قبضوں کی وجہ یہ تھی کہ یورپ سر مایہ دارانہ عہد میں داخل ہو چکا تھا۔ سر مایہ داری مسلم علاقوں میں رائج جاگیرداری نما معاشی و سیاسی نظام سے کہیں آگے کی چیز تھی۔نہ صرف سرمایہ دارانہ جدییدیت (تکنیکی، فوجی، جغرافیائی، ابلاغی جدیدیت) نے پس ماندہ جاگیردارانہ سماج کو شکست دی بلکہ نئے معاشی نظام نے بھی یورپ کی حکمرانی قائم کر دی۔ اس معاشی برتری کا ایک بڑا اظہار یہ تھا کہ مسلمان ممالک،بشمول سلطنت عثمانیہ،یورپ کی معاشی غلامی میں چلے گئے۔ استنبول کا بال بال یورپی قرضے میں جکڑا ہوا تھا۔
طالبان پاکستان کے ساتھ وہی کر رہے ہیں جو اسلام آباد کابل کے ساتھ کرتا تھا
یہ کاروائی پاکستانی افواج پر ایک دہشت گرد حملے کے بعد کی گئی جس میں لیفٹنٹ کرنل اور ایک کپتان سمیت سات اہل کار جان سے گئے۔ معروف صحافی عمر چیمہ نے اپنے یو ٹیوب چینل پر بتایا کہ ایک اہل کار کا تعلق جہلم کے علاقے ٹمن سے تھا۔ جس دن فوجی افسر کا جنازہ ہوا، اسی روز اسی گاوں کے ایک اور شخص کا جنازہ تھا جس کا تعلق سپاہ صحابہ سے تھا۔ اس شخص نے ایک پولیس اہل کار کو قتل کیا تھا،جس کے بعد وہ جیل میں سزا کاٹ رہا تھااور جیل میں ہی ہلاک ہو گیا۔ٹی ٹی پی تب تک محفوظ رہے گی جب تک سپاہ صحابہ کو ریاستی سر پرستی میسر ہے۔
صہیونیوں کو سعودی منافقت کا علم ہے: جلبیر اشقر
یکجہتی کی تحریک کے اندر ایک ریاست یا دو ریاستوں پر بحث اکثر میرے خیال میں نامناسب ہوتی ہے، کیونکہ یہ فیصلہ پیرس، لندن یا نیویارک میں نہیں ہونا چاہیے کہ فلسطینیوں کے لیے کیا ضروری ہے۔ یکجہتی تحریک کو فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کے لیے اپنے تمام اجزاء میں جدوجہد کرنی چاہیے۔ یہ فلسطینیوں پر منحصر ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اس وقت 1967 میں مقبوضہ علاقوں سے اسرائیلی انخلاء، مغربی کنارے میں بستیوں کو ختم کرنے، علیحدگی کی دیوار کی تباہی، پناہ گزینوں کی واپسی کے حق اور اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کیلئے حقیقی معنوں میں مساوات کے مطالبات پر فلسطینیوں کا اتفاق رائے ہے۔ یہ تمام جمہوری مطالبات ہیں، جو ہر کسی کے لیے قابل فہم ہیں، اور فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کی مہم کا مرکز ہونے چاہئیں۔
انقلابی رجحانات: محنت کشوں اور عوام کی پیش قدمی اور بائیں بازو کے لیے گنجائش
جس طرح انتہائی دائیں بازو کے ابھار سے ظاہر ہونے والے خطرے کو معمولی سمجھنا ایک غلطی ہو گی اسی طرح محنت کشوں اور وسیع تر عوام کے بڑھتے ہوئے ابھار سے انکار کرنا بھی بہت بڑی بھول ہو گی۔ یہ تحرک کئی برسوں سے جاری ہے اور 2023ء میں ایک جست کے ساتھ امریکہ اور یورپ کی طاقتور مزدور تحریک اس میں شامل ہوئی ہے۔ ہمیں اس میں فلسطینی مزاحمت کو بھی شامل کرنا چاہیے جس نے پورے مشرق وسطیٰ میں سامراج کے منصوبوں کو غیریقینی سے دوچار کر دیا ہے۔
غزہ: 1 فیصد آبادی ہلاک: فرانس میں یہ 680,000 اموات کے مساوی ہو گا
قابض افواج کی فوجی رپورٹس کی روشنی میں چیزیں نسبتاً واضح ہیں۔ شمال کے لیے انتہائی شدید بمباری کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے اور جنوبی حصے میں مکمل کیا جا رہا ہے۔ شمالی نصف اور مرکز میں، قابض افواج اگلے مرحلے کی طرف بڑھ گئی ہیں، جو کہ ایک نام نہاد کم شدت والی جنگ ہے۔ درحقیقت وہ سرنگوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے اور حماس اور دیگر تنظیموں کے جنگجوؤں کو تلاش کرنے کے لیے ان علاقوں پر مبنی ایک مکمل گرڈ(grid) ترتیب دے رہے ہیں۔ فلسطینی جنگجو ہر وقت گھات میں رہتے ہیں اور جب تک سرنگیں موجود ہیں یہ کسی بھی وقت ابھر سکتے ہیں۔
امریکہ آئی ایم ایف کو کیسے کنٹرول کرتا ہے؟ بلاکنگ اقلیت کے طور پر
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر امریکہ میں بریٹن ووڈ کے مقام پر ورلڈبنک اور آئی ایم ایف کی بنیاد رکھی گئی تو مقصد جنگ سے تباہ حال یورپی ممالک کی بحالی تھی۔ ان اداروں کو، جو اب اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ہیں، بنانے کے لئے لگ بھگ چالیس سے زائد ریاستیں جمع ہوئیں کیونکہ ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ممالک کو ابھی آزادی ہی نہ ملی تھی۔ اب آئی ایم ایف کے 190 رکن ممالک ہیں۔