ناروے کے سرکردہ ناول نگاروں میں سے ایک کھنیوت ہامسن ہیں۔ انہیں 1920 میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔ اُن کے کئی ناولوں کو اسٹیج کے لیے ڈرامائی شکل دی گئی اور سنیما کی سکرین پر بھی پیش کیا گیا۔ وہ ناروے کے سب سے زیادہ فلمائے گئے مصنفین میں شامل ہوتے ہیں۔ وہ متنازعہ بھی سمجھے جاتے ہیں کیونکہ وہ 1930 کی دہائی میں ہٹلرکے جرمنی کے حامی تھے اور ناروے پر جرمن قبضے کی حمایت کرتے تھے۔ اس کے باوجود ان کے ناولوں کی ساکھ تباہ نہیں ہوئی اور نارویجن ادب میں وہ سب سے زیادہ پڑھے جانے والوں میں سے ایک رہے ہیں۔
مزید پڑھیں...
5 جولائی کا شب خون، ایک تاریخی تناظر میں
کہتے ہیں تاخیر سے مرتب ہونیوالی تاریخ زیادہ مستند ہوتی ہے۔ کیونکہ حکمران طبقے کے حاشیہ بردار اور بکاؤ و ضمیر فروش دانشور حقائق چھپا کر اور اصل حالات و واقعات کو مسخ کر کے قلم زن کرتے ہیں تاکہ حکمران اشرافیہ اور ان کے نظام کے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ لیکن خوشبو اور سچ صدا چھپ نہیں سکتے۔ لہٰذا ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ماضی کے چھپائے اور مسخ کیے گئے حقائق اور واقعات اپنی اصل اور حقیقی شکل میں منظر عام پر آ جاتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں طلبہ کی احتجاجی تحریک
بنگلہ دیش میں طلبہ کی حالیہ احتجاجی تحریک نے ملک کے سیاسی اور سماجی منظر نامے پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ احتجاج سرکاری نوکریوں میں کوٹہ نظام کے خلاف جون کے اوائل میں شروع ہوئے۔ یہ کوٹہ سسٹم سرکاری ملازمتوں میں مخصوص طبقات کو مراعات فراہم کرتا ہے۔ اس مسئلے کا جائزہ لینے کے لیے تحریک کے پیچھے کارفرما بنیادی عوامل کا احاطہ ضروری ہے۔
بھارتی انتخابات میں ہندوتوا گھائل
بھارت کے حالیہ عام انتخابات میں بظاہر ’فتح‘ کے بعد نریندر مودی ایک بار پھر بھارت کا وزیرا عظم بننے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ تقریباً 65 فیصد ٹرن آﺅٹ کے ساتھ 19 اپریل سے یکم جون تک جاری رہنے والے دنیا کے سب سے بڑے عام انتخابات میں مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اپنے (400 نشستوں کے) تمام تر اہداف اور پروپیگنڈے کے برعکس پارلیمنٹ کی 543 کُل نشستوں میں سے محض 240 ہی حاصل کر سکی ہے۔ بی جے پی کے انتخابی الائنس این ڈی اے کی حاصل کردہ نشستوں کو شامل کیا جائے تو لوک سبھا میں مودی کو کُل 293 نشستیں حاصل ہو سکی ہیں جو حکومت بنانے کے لیے درکار 272 سیٹیوں کے ہدف کو پورا کرتی ہیں۔ تاہم اب مودی کو مخلوط حکومت کے ذریعے حکمرانی کرنا ہو گی۔
امید کا محور:ایران، افغانستان، پاکستان میں خواتین کی جدوجہد
اس ویبینار کو مدیر جدوجہد فاروق سلہریا ماڈریٹ کریں گے۔اس ویبینار کا مقصد روز نامہ جدوجہد کے لئے فنڈ ریزنگ ہے۔یاد رہے،سوشلسٹ روایات کے مطابق ’روزنامہ جدوجہد‘ اپنے انقلابی ہمدردوں کی جانب سے دی گئی انفرادی مالی مدد سے چلایا جاتا ہے۔’روزنامہ جدوجہد‘نہ تو کمرشل اشتہارات پر انحصار کرتا ہے نہ ہی کسی ریاستہ و غیر ریاستی ادارے سے کسی قسم کی مالی مدد قبول کرتا ہے۔
حکومتی تشدد کے خلاف بنگلہ دیشی طلبہ کی جاندار مزاحمت!
یہ شدید عدم مساوات اور استحصال بنگلہ دیش تک ہی محدود نہیں بلکہ دنیا بھر سرمیاداری کا پیدا کردا ہے اور خاص طور پر نیو لبرل پالیسیوں کے تحت بحران اپنی انتہا کو چھو رہا ہے۔ ڈھاکہ کی سڑکوں سے لے کر کشمیر کے پہاڑوں تک، چین کے کارخانوں سے لے کر جنوبی افریقہ کی کانوں تک دن رات محنت کرنےکے با وجود اربوں محنت کش اور مزدور اپنی زندگی برقرا نہیں رکھ پا رہے ۔ ایک کونے پر دولت کے مسلسل جمع ہوتے ہوئے ذخائر کی وجہ سےاشرفیہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے جبکہ دوسرے کونے پر عوام کو غربت اور بدحالی کی پستیوں کی سمت دھکیلا جا رہا ہے۔
پاکستان: تعلیمی ایمرجنسی پر عملدرآمد کے لئے کتنا بجٹ درکار ہے؟
طلبہ کو اس جمود کے عہد کو توڑنا ہو گا۔ مزاحمت کے علاوہ کوئی بھی راستہ طلباء کے مسائل کے حل کے لیے موافق نہیں ہے۔ مزاحمت کے ذریعے سے ہی وہ اپنے حقوق پر ڈالے گئے ڈاکے کا حساب لے سکتے ہیں۔ طلباء کو طلباء اور عوام دشمن پالیسیوں کو بانگ دل للکارنا ہو گا۔
اس تباہ حال تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لیا جائے، سمسٹر سسٹم کا خاتمہ کیا جائے اور طلباء یونین پر عائد کی گئی پابندی کو ختم کیا جائے تاکہ طلباء بااختیار ہو سکیں اور مسائل کا تدارک کر سکیں ورنہ تعلیمی نظام کی نااہلی کی وجہ سے یہ معاشرہ مزید تغفن زدہ ہو گا۔
’آپریشن عزم استحکام: ریاست کنٹرولڈ طالبانائزیشن چاہتی ہے‘
’’ہمیشہ سے ہم نے دیکھا کہ گڈ طالبان بیڈ بن جاتے ہیں اور بیڈ ایک وقت میں گڈ بن جاتے رہے ہیں۔ یہ ریاست کا اپنا بیانیہ ہے۔ اسی طرح افغان طالبان کیلئے جو گڈ ہونگے، وہ پاکستانی ریاست کیلئے بیڈ ہونگے، جو افغان طالبان کیلئے بیڈ ہونگے، وہ ان کیلئے بیڈ ہونگے، جو دونوں کیلئے بیڈ ہونگے، وہ امریکہ کیلئے گڈ ہو جائیں گے۔ یہ جو ڈرامہ چل رہا ہے ، اسے ہمیں سمجھنا چاہیے۔ اسی بنیاد پر عسکریت کا کاروبار چل رہا ہے۔ اب لوگ بھی سمجھ چکے ہیں کہ گڈ اور بیڈ کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘
ستر کی دہائی، بھٹو اور فلمی صنعت
ایک پھلتا پھولتا سنیما کلچر ایک ایسے معاشرے کی نشاندہی کرتا ہے ،جس میں لوگ تفریح کے ذریعے اپنے مسائل، امیدوں اور خواہشات پر غور و فکر کرتے ہیں۔ ایسا پھلتا پھولتا سنیما کلچر پاکستان میں 70ء کی دہائی میں تھا۔ اس دہائی میں وہ سیاسی بیداری اور سماجی ترقی پسند اقدار واضح تھیں جن کی شروعات 1968 کی عالمی تحریک سے ہوئی تھی۔ اس دہائی میں تاریخ کی سب سے زیادہ فلمیں ریلیز ہوئیں اور پہلی بار سرکاری سطح پر ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں فلمی صنعت کو باقاعدہ پذیرائی ملی۔ یہ دہائی پاکستان میں نئے ٹیلنٹ کی دولت لے کر آئی۔ سنگیتا اور شمیم آرا جیسی خاتون ہدایتکاروں نے فلمی صنعت کے تنوع کو وسیع کیا۔ اردو کے جرائد‘مصور’، ‘شمع’، ‘ممتاز’ اور‘دھنک’ نے فلموں کے متعلق پڑھنے کا مواد فلم بینوں تک پہنچایا۔
شیام: اے سٹار فارگاٹن
شیام روشن خیال اور وسیع النظر انسان تھے۔ انگریزی اور اردو ادب کا وسیع مطالعہ تھا۔سعادت حسن منٹو ان کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ اشاعت سے پہلے منٹو اپنی کہانیاں شیام کو پڑھاتے۔دیگر قریبی دوستوں میں اداکار اوم پرکاش بھی شامل تھے۔اوم پرکاش سے لاہور میں دوستی ہوئی۔ اوم پرکاش نے ہی پہلی دفعہ فلم میں کام لینے میں مدد دی۔فلم پنجابی زبان میں تھی،نام تھا ’گوانڈھی‘ (پڑوسی،1942) جو لاہور میں بنی۔