مزید پڑھیں...

سٹاک ہولم: فہمیدہ ریاض کی سالگرہ معروف شاعر مسعود قمر کے گھر منائی گئی

اس موقع پر منعقد ہونے والی تقریب پر مختلف مقررین نے فہمیدہ ریاض کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ تقریب کی میزبانی کرتے ہوئے مسعود قمر نے فہمیدہ ریاض کی زندگی اور جدوجہد بارے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ فہمیدہ ریاض میرٹھ میں پیدا ہوئیں۔ان کا خاندان، بالخصوص والد علم و ادب کی دنیا سے تعلق رکھتے تھے جس نے فہمیدہ ریاض کو شاعری اور سیاست کی جانب راغب کیا۔ فہمیدہ ریاض دورِ طالب علمی میں ترقی پسند خیالات سے متاثر ہو کر مارکس واد کی جانب راغب ہوئیں۔ شادی کے بعد،وہ لندن چلی گئیں۔شادی ناکام ثابت ہوئی اور وہ کراچی واپس آ گئیں جہاں ان کی ملاقات ظفر اُجن سے ہوئی جو سیاسی کارکن تھے۔ بلوچستان میں بھٹو حکومت نے فوجی آپریشن شروع کر رکھا تھا۔ظفر اُجن اس فوجی آپریشن کی مخالفت میں پیش پیش تھے،اسی مزاحمتی سیاست کے دوران دونوں کی ملاقات ہوئی جو عمر بھر کی رفاقت میں بدل گئی۔

جدوجہد فنڈ ریزنگ: عالمی ویبینار یکم ستمبر کو ہو گا

اس ویبینار کو مدیر جدوجہد فاروق سلہریا ماڈریٹ کریں گے۔اس ویبینار کا مقصد روز نامہ جدوجہد کے لئے فنڈ ریزنگ ہے۔یاد رہے،سوشلسٹ روایات کے مطا بق روزنامہ ’جدوجہد‘ اپنے انقلابی ہمدردوں کی جانب سے دی گئی انفرادی مالی مدد سے چلایا جاتا ہے۔ روزنامہ ’جدوجہد‘نہ تو کمرشل اشتہارات پر انحصار کرتا ہے نہ ہی کسی ریاستی و غیر ریاستی ادارے سے کسی قسم کی مالی مدد قبول کرتا ہے۔

بنگلہ دیش: جابرانہ نظام کو چیلنج کرتے طلبہ

بنگلہ دیش میں طلبہ کی تحریک بنگلہ دیشی سیاست اور معاشرے میں گہرے تضادات کی طرف توجہ دلانے میں کامیاب رہی ہے۔ یہاں تک کہ اگر حکومت طلبہ پر وحشیانہ جبر کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، پھر بھی اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ مستقبل میں بغاوتیں نہیں ہوں گی۔ مستقبل میں بغاوتوں میں معاشرے کے دیگر طبقات بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ ایک بار پھر بنگلہ دیش کے طلبہ ملک کو مستقبل کا راستہ دکھا رہے ہیں۔

’بلوچ قومی اجتماع‘ کی راہ میں رکاوٹیں، پدی زِر گوادر میں دھرنا شروع، فائرنگ میں ایک ہلاک، درجنوں زخمی

حکومت اور سکیورٹی اداروں نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام گوادر میں 28جولائی کو منعقد ہونے والے بلوچ راجی مچی(بلوچ قومی اجتماع) کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر کے ناکام بنا دیا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے پدی زِر گوادر میں غیر معینہ مدت تک دھرنا شروع کر دیا ہے۔

گوادر میں ’بلوچ راجی مچی‘ کے ساتھ اظہار یکجہتی: این ایس ایف اور آر ایس ایف کا مشترکہ اعلامیہ

ہم بلوچ محکموں کی ہر قسم کے سامراجی قبضے کے خلاف لازوال جدوجہد کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں اور بلوچستان سمیت تمام محکوم قوموں کے اپنے وسائل پر حق ملکیت کی جدوجہد میں عمل ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ بلوچستان کا مقامی حکمران طبقہ کیسے اس سامراجی لوٹ مار میں نہ صرف برابر کا شریک ہے،بلکہ شاہ سے بڑھ کر شاہ کا وفادار بننے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ چند ماہ پہلے بلوچ خواتین اور نوجوانوں کا اسلام آباد میں دھرنہ ہو یا آج ہونے والا بلوچ راجی مچی،مقامی حکمرانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ انکی وفاداری بلوچ محکوم اقوام کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے مالی مفادات اور اپنے طبقے کے ساتھ ہے۔ ہم بلوچ سیاسی کارکنان کے خلاف ہونے کریک ڈاون کے شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور چیئر مین بی ایس او جیند بلوچ سمیت تمام اٹھائے گئے طلبہ اور سیاسی کارکنوں کو فی الفور بازیاب کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

جدوجہد کا نتیجہ: 100 یونٹ بجلی کا بل 300 روپے آنا شروع ہو گیا

عوامی حقوق تحریک کی قیادت کی جانب سے کی گئی اپیل پر تقریباً ایک سال تک 70فیصد سے زائد شہریوں کی جانب سے بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ جاری رکھا ہوا تھا۔ اس دوران متعدد شٹر ڈاؤن، پہیہ جام ہڑتالیں اور جلسے جلوس منعقد کئے گئے، جبکہ درجنوں مقامات پر ایک سال سے زائد عرصہ تک احتجاجی دھرنے دیئے گئے۔ آخری مرحلہ میں تمام اضلاع سے دارالحکومت مظفرآباد کی جانب لانگ مارچ کیا گیا۔ لانگ مارچ کے مظفرآباد پہنچنے سے قبل ہی حکومت نے مطالبات منظور کر دیئے تھے۔

آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط سماجی بغاوت کو جنم دے سکتی ہیں: سابق گورنر سٹیٹ بینک

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق قائم مقام گورنر اور آئی ایم ایف کے سابق عہدیدار مرتضیٰ سید نے خبردار کیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ 7ارب ڈالر کا 24ویں پروگرام کا معاہدہ عوام پر ناقابل برداشت کفایت شعاری نافذ کرنے کا باعث بنے گا۔ یہ دنیا کے پانچویں بڑے ملک میں ایک بڑی سماجی بغاوت کو جنم دے سکتا ہے، جیسا کہ گزشتہ ماہ کینیا میں ہوا ہے۔ یہ وقت آنے پر قرض دہندگان کیلئے بھی گہرے نقصانات کا باعث بنے گا اور پاکستان میں آئی ایم ایف کا پہلے سے خراب امیج مزید ٹوٹ سکتا ہے۔

رواں مالی سال میں آئی پی پیز کو 2 ہزار 91 ارب کپیسٹی پے منٹس کی جائیں گی

ذرائع کے مطابق پن بجلی پلانٹس کی کیپسٹی پے منٹس کا تخمینہ 446 ارب40 کروڑ روپے ہے، درآمدی کوئلے کے پاورپلانٹس کے لیے کیپسٹی پے منٹس کاتخمینہ 395 ارب40 کروڑ روپے ہے،ھرکول پاور پلانٹس کے لیے256 ارب روپے کی کیپسٹی پے منٹس کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

بجلی فی یونٹ 10 روپے تک لائی جائے، سپر ٹیکس امیروں پر لاگو کیا جائے

پاکستان کے ٹیکس نظام کو بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، جس میں امیروں کی ٹیکس چوری اور رجعت پسند ٹیکس نظام پر انحصار شامل ہیں۔ خاص طور پر جنوبی ایشیائی خطے میں ٹیکس جسٹس شدید مشکلات کا شکار ہے، جہاں بڑے پیمانے پرعام لوگوں پر ٹیکسوں کے نفاذ کی زیادتیوں کی وجہ سے عدم مساوات بڑھ رہی ہے۔