”ہم نے سارا ریکارڈ دیکھا ہے۔ بھٹو پر فوجیوں نے ذمہ داری ڈالی ہے“۔
مزید پڑھیں...
مسئلے کی جڑ کرپشن نہیں، طاقت ہے
تحریک انصاف جیسی جماعتوں نے یہ سامراجی اور آمرانہ بیانیہ عام کیا کہ پاکستان میں ہر مسئلے کی جڑ بدعنوانی ہے (تا کہ سرمایہ داری، طبقاتی اونچ نیچ اور قومی جبر کی بات نہ ہو سکے)۔ عمران خان کا بیانیہ یہ تھاکہ اگر پارسا لوگ حکومت میں آ جائیں تو بدعنوانی ختم ہو جاتی ہے۔ ان کا یہ بیانیہ پچھلے دو سال میں دھڑام سے زمین پر آ چکا۔
”گورنر صاحب میں کھاتا نہیں مگر پیتا خوب ہوں“: ایک مصور جو قلندر بھی تھا!
صادقین کے متعلق مشہو ہے کہ زندگی بھر انہوں نے افسروں، ارباب اختیار اور طاقتور سیاست دانوں کو گھاس نہیں ڈالی۔
تیس سالہ ’اسلامی‘ دور کے بعد سوڈان کو سیکولر ملک قرار دینے کا اعلان
پچھلے سال شروع ہونے والی بحالی جمہوریت کی ایک تحریک نے عمر البشیر کی آمریت کا خاتمہ کیا۔
بلاسفیمی کے نام پر فرقہ واریت
’روزنامہ جدوجہد‘ کی ملک بھر کے تمام شہریوں سے اپیل ہے کہ وہ دوسروں کے عقیدے کا احترام کریں۔ بطور شہری ہمیں مذہبی رواداری کی شاندار مثالیں قائم کرنی چاہئیں۔ ایسی سیاسی جماعتوں اور گروہوں سے ہوشیار رہنا ہو گا جو فرقہ واریت اور مذہبی جنون پھیلا کر دراصل اپنا سیاسی ایجنڈا آگے بڑھاتے ہیں۔
7000 ہیلتھ ورکرز کرونا سے ہلاک ہو چکے ہیں
دریں اثنا، کرونا کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
عاصم باجوہ کو بچاتے ہوئے عمران خان خود ڈوب جائیں گے!
ہم نے چند دن پہلے ایک ادارتی نوٹ میں کہا تھا کہ احمد نورانی کی رپورٹ پر حکومت کے لئے خاموش رہنا ممکن نہیں ہو گا۔ جنرل عاصم کو خود یہ خاموشی توڑنی پڑی۔ موقع پرست حزب اختلاف کو بھی لب کشائی کرنی پڑی۔ تردید کے بہانے ہی سہی، میڈیا کو بھی رپورٹ کرنا پڑا۔ تضاد اتنا کھلا ہے کہ روایتی جوڑ توڑ، زور زبردستی، سنسر اور ہیرا پھیری سے مسئلے پر قابو نہیں پایا جا سکے گا۔
وزارت بہترین انتقام ہے
اس نئے ایڈیشن میں آپ کی ایک بدنام نظم کا متن بدل کر ”پیشہ ور محافظو…وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں“ کر دیا جائے گا۔
باجوہ لیکس کی کوریج پاکستان کا میڈیا گیٹ ہے
سنسنی خیزی اور سازشی نظریات کی مدد سے تقریباً بیس سال تک ”آزاد میڈیا“ نے لوگوں کے ذہنوں کو ماؤف کئے رکھا مگر سوشل میڈیا کے پھیلاؤ اور حکمران طبقے کی آپسی لڑائیوں کی وجہ سے دھیرے دھیرے ”آزاد میڈیا“ کا بھرم کھلنے لگا۔ یہ آپسی لڑائیوں کا ہی نتیجہ تھا کہ سنسر شپ بھی بڑھنے لگی۔ صحافتی حلقوں میں واٹس اپ جرنلزم کی اصطلاح رواج پانے لگی۔
جنرل عاصم باجوہ کے صحافی احمد نورانی کو جواب نے معاملات مزید الجھا دیے
بھائی آخر کچھ تو سوچ کر یہ کمپنیاں بنائی گئیں لیکن شائد بعد میں سوچا کہ کاروبار کیا تو بڑا نقصان ہو گا۔