گورنرپنجاب چوہدری سرور نے محکمہ ہائیر ایجوکیشن، آفیشل ایکریڈیشن کمیٹی اور محکمہ قانون کے مشوروں کو نظر انداز کرتے ہوئے پاک پتن میں لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی کے ’سب کیمپس‘ کی اصولی منظوری دے دی ہے۔

گورنرپنجاب چوہدری سرور نے محکمہ ہائیر ایجوکیشن، آفیشل ایکریڈیشن کمیٹی اور محکمہ قانون کے مشوروں کو نظر انداز کرتے ہوئے پاک پتن میں لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی کے ’سب کیمپس‘ کی اصولی منظوری دے دی ہے۔
منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ جاپان کا اب تک کا سب سے بڑا مارچ تھا اور اس میں 4 ہزار سے زائد افراد نے حصہ لیا۔
حکومت کی طرف سے ملک بھر کے سرکاری سکولوں کو اپنی پالیسی میں تبدیلی کیلئے ایک مہینے کا وقت دیا گیا ہے۔
اس دلچسپ صورتحال کے پیش نظر سیاسی پنڈتوں کی نظریں مستقبل قریب پر لگی ہیں یہ دیکھنے کے لئے کہ امریکہ کا سرمایہ دارانہ نظام، لبرل جمہوریت اور اقتصادی مسائل کے تضادات اب اور کیا گل کھلانے والے ہیں؟
حکمرانوں سے مطالبہ کرنے کے بجائے اس سرمایہ دارانہ نظام کو ڈھانا ہو گا جو یہاں کی تمام قومیتوں کے محنت کشوں اور کسانوں کے زوال کا سبب ہے اور یہ کام تمام قوموں کے محنت کشوں اور مظلوموں کو اکٹھا کر کے ہی کیا جا سکتا ہے۔
محبت کوئی مستحکم رجحان نہیں، یہ شروع ہوتی ہے اور عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ نوجوان مرد اور خواتین کے مابین جو محبت ہمارے مذہبی اسکالرز اور سیاستدانوں کو ہر سال فروری میں بہت پریشان کرتی ہے وہ ایک گہرے احساس کا سطحی عکس ہے۔ اسے دبا یا ختم نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم بلا شبہ یہ کسی معاشرے کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ معاشرتی مفادات میں وہ اس محبت کو اس کے ضابطے کے اندر رکھے۔
بالی وڈ پیسے کمانے کے لئے فلمیں ریلیز کرتا ہے۔ لالچی کہیں کے۔ جالی وڈ قومی مفاد میں ویڈیو لیک کرتا ہے۔ فی سبیل اللہ!
خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انڈیا میں جاری کسانوں کے احتجاج کے دوران ان پر نہ صرف حملے کئے جا رہے ہیں بلکہ ان کی ناکہ بندی کرکے ان تک پانی اور ضروری اشیا کی رسائی کو بند کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کے غیر سرکاری شاعر فیض احمد فیض 13 فروری 1911ءمیں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ پاکستان کے قومی شاعر علامہ محمد اقبال اور فیض کا آبائی شہر ایک ہی ہے۔ 1984ءمیں 73 سال کی عمر میں فیض کا انتقال لاہور میں ہوا، جسے زندگی کے آخری برسوں کے دوران وہ اپنا شہر کہنے لگے تھے۔
فیض احمد فیض کی سالگرہ کے موقع پر ان کا ایک مختصر سا ٹیلی ویژن انٹرویو پیش کیا جا رہا ہے جس میں وہ اپنے بچپن کی باتیں بھی کرتے ہیں اور قلم کار کی ذمہ داریوں پر بھی روشنی ڈالتے ہیں: