شمال مشرقی افریقی ملک سوڈان کی فوج نے عوامی احتجاج کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کو بحال کرنے اور تمام سیاسی رہنماؤں کو رہا کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

شمال مشرقی افریقی ملک سوڈان کی فوج نے عوامی احتجاج کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کو بحال کرنے اور تمام سیاسی رہنماؤں کو رہا کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
اہم سعودی عرب کی جانب سے اعلان کردہ رقم کی منتقلی نہ ہونے کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر بھی سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔
حکومتوں کی طرف سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے پابندیوں اور لاک ڈاؤن کا اطلاق کرنے کے علاوہ ویکسین لگوانے کیلئے سخت قوانین متعارف کروائے گئے ہیں۔
ساشا اور بشریٰ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ طلبہ یونین کو بحال کیا جانا چاہیے، طلبہ کو اپنے متعلق ہونے والے فیصلوں میں فیصلہ کن رائے رکھنے کا اختیار ملنا چاہیے۔
اس سیشن کے لئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری بھی مدعو تھے مگر انہوں نے اپنے ٹویٹ کے ذریعے یہ کہہ کر شرکت سے انکار کر دیا کہ وہ ایک مفرور ملزم کے ساتھ پینل میں نہیں بیٹھ سکتے۔
اس سارے غیر منصفانہ نظام میں غیر ملکی میڈیکل گریجویٹس انصاف کے طلب گار ہیں۔
”یہ صحیح وقت ہے کہ ہم ان تمام سکولوں کو بند کر دیں جو کھیل کے میدانوں کے بغیر ہیں کیونکہ بچوں کو ایک دن میں کم از کم ایک گھنٹے لازمی جسمانی سرگرمیوں میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے بالغ افراد بھی اپنے طرز زندگی کو تبدیل کریں اور فٹ اور صحت مند رہنے کیلئے جسمانی سرگرمیوں کا سہارا لیں۔“
عمران خان کے تین سال کے اقتدار میں پے در پے ناکامیاں ملک کو تباہی کی طرف لے گئی ہیں۔ فی الحال اسٹیبلشمنٹ بھی یہ بات سمجھ چکی ہے کہ ان کا انتخاب غلط تھا۔
”آئین پاکستان کے تحت حلف اٹھانے والے ایم این اے علی وزیر کئی ماہ سے جیل میں ہیں۔ انکے پروڈکشن آرڈر جاری ہوتے ہیں، نہ ضمانت ہونے دی جاتی ہے۔ ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) سے بات ہو رہی ہے، ٹی ایل پی (تحریک لبیک پاکستان) سے معاملہ طے کیا گیا، پھر عدم تشدد کے داعی علی وزیر رہا کیوں نہیں ہو سکتے۔ 2 نہیں 1 پاکستان۔ آئین کی رٹ تسلیم کرنے والے علی وزیر کو رہا کیا جائے۔“
کہا جا رہا ہے کہ مودی حکومت کے اس حیران کن اور اچانک کئے گئے اقدام کے پیچھے یو پی اور پنجاب میں آنے والے انتخابات کی حکمت عملی بھی ہے۔ یو پی میں جہاں کسانوں کی بڑی تعداد قرضوں اور مالی مشکلات میں گرفتار ہے، سرکار کے خلاف عوامی ردعمل بڑھ رہا ہے جس کے تنائج آئندہ انتخابات میں بی جے پی کی شکست کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں۔ دوسری طرف پنجاب میں جہاں بر سر اقتدار کانگرس پارٹی اندرونی سیاست اور رہنماؤں کے درمیان ذاتی مفادات کی چپقلشوں کا شکار ہے، بی جے پی اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے پرتول رہی ہے۔