Month: 2022 نومبر


عمران خان کی تاریخی مقبولیت یا رائی کا پہاڑ؟

الیکشن کمیشن نے وہ ’ممنوعہ ریڈ لائن‘ کراس کی اور عمران خان کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے اس کو بدعنوان بھی قرار دیا اور ڈی سیٹ بھی کر دیا۔ سوشل میڈیا پر طوفان برپا کرنے کے برعکس زمین پر ایسا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ گو پنجاب اور صوبہ پختونخواہ کی حکومتی مشینری کی مکمل حمایت انہیں حاصل تھی مگر کہیں بھی ایسا مجمع اکھٹا نہ ہو سکتا جو ریڈ لائن عبور کرنے والوں کے لئے کوئی مشکل پیدا کر سکے۔ ایک دو گھنٹوں میں ہی عمران خان کو بھی خود کو اس ’ٹرانس‘ سے نکالنا پڑا جس میں اس نے خود کو مبتلا کیا ہوا تھا۔

جموں کشمیر: بلدیاتی انتخابات کے راستے میں رکاوٹیں کیوں؟

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ایک مرتبہ پھر مشکوک ہو گیا ہے۔ تاہم صورتحال آہستہ آہستہ دونوں فریقین کو بند گلی میں دھکیلتی جا رہی ہے۔ گزشتہ ایک سال سے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد تیاریوں اور رکاوٹوں کا سلسلہ جاری ہے۔

سرائیکی صوبے کا مطالبہ علاقے کے لوگوں کا جمہوری حق ہے: ڈاکٹر نخبہ تاج لنگاہ

معروف دانشور اور سرائیکی تحریک کی رہنما ڈاکٹر نخبہ تاج لنگاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ ملک کی اصل تہذیبوں اور ان کی تاریخی پہچان کو ختم کرنا چاہتا ہے اور ان کی زبان و ثقافت کو پامال کر رہا ہے۔ ان کے مطابق سیاستدان ووٹ بینک حاصل کرنے کے لئے سرائیکی عوام کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں لیکن وہ صوبے کے قیام میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ مگر ان تمام کوششوں کے باوجود ”سرائیکی صوبے کا مطالبہ تاریخی اور تہذیبی حقیقتوں پر مبنی ہے جسے رد نہیں کیا جاسکتا۔ یہ مطالبہ علاقے کے لوگوں کا ایک جمہوری حق ہے۔“

طالبان کے ہاتھوں قتل ہونیوالی طالبات کی قبروں پر لائبریری قائم

’حال ہی میں کابل میں قتل ہونے والی یہ ہزارہ لڑکیاں کتابوں سے محبت کرتی تھیں۔ ان کے اہل خانہ نے اب ان کی قبروں کے پاس ایک چھوٹی لائبریری بنائی ہے۔ دہشت گردوں نے انہیں مار ڈالا، لیکن وہ جلد یا بدیر اپنے قاتلوں پر فتح حاصل کر لیں گی۔ طالبان اور ان کے ساتھیوں کو اس کا علم ہونا چاہیے۔‘

یہ مارچ ہے نہ لانگ ہے

عمران خان کا سارا ریڈیکل ازم بھی اگلے چند دنوں میں جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا۔ فوج کھل کر ان کی مخالفت میں سامنے آ گئی ہے۔ اگر فوج منقسم تھی اور اس کے بعض دھڑے عمران کی پشت پناہی کر رہے تھے تو یہ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس اس بات کا اظہار تھی کہ فوج نے اپنی صفیں از سر نو درست کی ہیں۔ بلاشبہ یہ پریس کانفرنس فوج کے نروس ہونے کی بھی علامت تھی لیکن یہ اس بات کا برملا اظہار تھا کہ اب یہ لڑائی براۂ راست تحریک انصاف اور فوج میں ہے۔