1۔ آزادی کے اس ہیرو کے نام پر اس چوک کا نام بھگت سنگھ چوک رکھا جائے۔
2۔ بھگت سنگھ کی جدوجہد کو تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے۔ پاکستان کی نصابی کتابوں میں بھگت سنگھ سمیت آزادی کے بیشتر غیر مسلم ہیروز کا تذکرہ کم ہی ملتا ہے، بھگت سنگھ مذہبی نوجوان نہیں تھا۔ وہ ایک انقلابی نوجوان تھا۔ مذہبی بنیادوں پراس کی انگریز سامراج کے خلاف برصغیر کی آزادی کی جدوجہد کی مخالفت کرنا درست نہیں ہے۔
3۔ بھگت سنگھ بہادری کی ایک درخشان مثال تھا۔ بھگت سنگھ آزادی کا ہیرو ہے، اور اسے پاکستانی حکومت سرکاری طور پر قومی ہیرو تسلیم کرے۔
Month: 2023 مارچ
انڈیا نے انٹرنیٹ سنسرشپ کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا!
لیکن یہی ٹیکنالوجی آمروں، مقبول سیاسی لیڈروں اور لبرل حکومتوں کے لئے ایک نیا چیلنج بھی ہے جس کی روک تھا م کے نت نئے طریقے ڈھونڈ ے جا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں حکومتیں انٹر نیٹ پرجزوی پابندیاں عائد کر رہی ہیں، انہیں مکمل طور پر بند کر رہی ہیں یا سوشل میڈیا کی لوگوں تک رسائی ناممکن بنانے میں مصروف نظر آتی ہیں۔
جموں کشمیر: ایک بار 200 یونٹ بجلی استعمال کی تو 7 ماہ تک کمرشل نرخ پر بل آئیگا
7 ماہ تک 200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارف کو پروٹیکٹڈ کیٹیگری میں شامل کر لیا جائے گا اور اسے ڈومیسٹک یا گھریلوصارف کے سابقہ نرخوں کے مطابق بل جاری کیا جائے گا۔
جموں کشمیر: ممنوعہ کتب رکھنے پر 2 دکانیں سیل، نصاب میں شامل کتب پر بھی پابندی
مذکورہ کتابوں میں سعید اسد کی تحریر کردہ کشمیریات (پارٹ 1)، منگلا ڈیم خطرناک توسیع منصوبہ، شعور فردا، ملامت جموں و کشمیر اور دیوانوں پر کیا گزری شامل ہیں۔ اس کے علاوہ عامرہ نور کی تصنیف ’بارہ مولہ‘، ڈاکٹر شبیر چوہدری کی تصنیف ’عارف شاہد کیوں قتل ہوا تھا‘، کرشنا مہتا کی تصنیف’ایک ماں کی سچی کہانی‘، صحافی نقی اشرف کے مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین پر مشتمل کتاب ’حرف ضمیر‘، معروف صحافی عبدالحکیم کشمیری کی تصنیف ’تنازعہ کشمیر حقیقت کے آئینہ میں‘، جموں کشمیر کی طلبہ تحریک کے پس منظر پر لکھا گیا قمر رحیم کا ناول ’آزادی کا سفر‘ اور معروف انقلابی دانشور ڈاکٹر لال خان (مرحوم) کی تصنیف ’چین کدھر‘ بھی پابندی زدہ کتب میں شامل کی گئی ہیں۔
نیب سربراہ کیلئے 17 لاکھ تنخواہ، سرکاری رہائش گاہ، گاڑیاں، پلاٹ اور دیگر مراعات تجویز
قابل غور بات یہ ہے کہ سابق چیئرمین نیب نے بھی انہی شرائط و ضوابط سے استفادہ حاصل کیا تھا۔
جموں کشمیر: نیپ کے جلسہ پر مبینہ عسکریت پسندوں کی فائرنگ، ریاست گیر احتجاج کا اعلان
نیشنل عوامی پارٹی اور دیگر قوم پرست تنظیموں کی جانب سے ملزمان کی گرفتاری کیلئے انتظامیہ کو 48 گھنٹے کی مہلت دیتے ہوئے 24 گھنٹے بعد احتجاجی دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا ہے اور ملزمان کو گرفتار نہ کئے جانے کی صورت ریاست گیر احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے۔
کارپوریٹ فارمنگ کسانوں کے حقوق کی خلاف ورزی، سرکاری زرعی زمینیں مزارعین اور بے زمین کسانوں کے نام کی جائیں: پاکستان کسان رابطہ کمیٹی
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی چھوٹے کسانوں اور مزارعین کی زرعی اراضی چھیننے اور اسے کارپوریٹ فارمنگ میں تبدیل کرنے کی شدید مذمت کرتی ہے۔ پنجاب کی نگراں حکومت کی جانب سے تین اضلاع بھکر، خوشاب اور ساہیوال میں کم از کم 45,267 ایکڑ اراضی کو ‘کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ’ کے لیے پاک فوج کے حوالے کرنے کا حالیہ معاہدہ چھوٹے کسانوں اور مزارعین کے حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔
اہل زمان پارک کے نام کابل سے ایک خط
کابل چالیس سال خونی قسم کا زمان پارک بنا رہا۔ یہاں جب ’پر امن احتجاج‘ہوتا تھا پٹرول بم نہیں، خود کش بم پھٹتے تھے۔ یہاں پنجاب پولیس نہیں سویت روس، امریکہ، سی آئی اے، القاعدہ، ’دنیا کی نمبر ون‘، سعودی مخبرات، پوری مسلم ورلڈ کے جہادی، پاکستان اور کشمیر کے مجاہدین…ہمارے سکولوں، ہسپتالوں، قبرستانوں، درگاہوں، بازاروں، شاہراہوں، گوردواروں، مندروں اور مسجدوں پر کبھی جہازوں سے مدر آف آل بامبز گراتے تو کبھی مومن بھائی جنت کی تلاش میں کابل کی کسی بستی کو جہنم بنا دیتے۔
پاک فوج نے پنجاب سے 45 ہزار ایکڑ اراضی کارپوریٹ فارمنگ کیلئے الاٹ کروا لی
ایک دستاویز منظر عام پر آئی ہے، جس میں لکھا ہے کہ ملٹری لینڈ ڈائریکٹوریٹ نے پنجاب کے چیف سیکرٹری، بورڈ آف ریونیو اور زراعت، جنگلات، لائیو اسٹاک اور آبپاشی کے محکموں کے سیکرٹریز کو بھکر کی تحصیل کلورکوٹ اور منکیرہ میں 42 ہزار 724 ایکڑ، خوشاب کی تحصیل قائد آباد اور خوشاب میں 1818 ایکڑ اور ساہیوال کی تحصیل چیچہ وطنی میں 725 ایکڑ اراضی حوالے کرنے کیلئے خط لکھا تھا۔
بھارتی پنجاب: جی 20 اجلاس کے دوران 150 مقامات پر کسانوں کا احتجاج
بین الاقوامی اداروں کی پالیسیاں کسانوں اور عام انسانوں کے مفادات کے منافی ہیں۔ ان کے مطابق ہم جی 20 کے اجلاس کے موقع پر اس لیے احتجاج کر رہے ہیں کہ جی سیون کے 7 ملکوں نے جو پالیسیاں وضع کی ہیں وہ ہمارے حق میں نہیں ہیں۔ چاہے یہ پالیسیاں بجلی، تعلیم اور صحت کے شعبوں سے متعلق ہوں یا زرعی شعبے سے متعلق، یہ ہمارے لیے نقصان دہ ہیں۔