اس معروضی پس منظر میں اس سال یوم مئی منایا جا رہاہے کہ 1930ء کی دہائی کی کساد بازاری اب دوبارہ ہر ایجنڈے پر واپس آ گئی ہے۔ یہ یوم ِمئی صحت کی سلامتی اور ملازمتوں کے تحفظ کے لئے منایا جا رہاہے۔ اس صورت حال میں ایک محنت کش کا یہ جملہ بہت کچھ عیاں کر دیتا ہے، ”کرونا مارے نہ مارے، بھوک ہمیں ضرور مار دے گی“۔
مزید پڑھیں...
یوم مئی: محنت کشوں کے عالمی دن کے حوالے سے پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کا پوسٹر جاری
وبا سے مرنا بھوک سے مرنے سے بہتر سمجھاجا رہا ہے۔ اس کیفیت میں جاری لاک ڈاؤن کے باعث روایتی طریقے سے یوم مئی نہیں منایا جا سکتا۔
فوجی اخراجات کرنے ہیں، صحت پر خرچ نہیں کرنا!
سرمایہ داری نظام میں حکومتیں عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی بجائے ہتھیاروں اور دیگر جان لیوا اقدامات پر تو اربوں ڈالر خرچ کرنے کو تلی ہوتی ہیں مگر صحت کے میدان میں بالکل فارغ ہیں۔
پاکستانی یونیورسٹیاں ہمیشہ کے لئے بند کر دی جائیں
جو ملک ستر سال سے دیوالیہ پن کا شکار ہو اسے اکنامکس کے ڈیپارٹمنٹ تو کھولنے ہی نہیں چاہئے تھے۔ ویسے بھی جب ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف اتنے پڑھے لکھے ماہرین ِمعاشیات ہر طرح کے ٹیکس لگانے اور مہنگائی کرنے کے لئے ہمارے ہاں بھیج دیتے ہیں تو اکنامکس کے شعبہ جات بند کرنے میں ہرگز کوئی حرج نہیں ہو گا۔
خون کی پیاسی مڈل کلاس کا نیا ہیرو
”جرم معاشرے میں موجود مسائل کے خلاف احتجاج ہوتا ہے۔ جرائم کی وجوہ ختم کرنے کی ضرورت ہے۔“
چینی جیسے غیر منافع بخش کاروبار کے لئے 78 شوگر ملیں کیوں لگائی گئیں؟
۔ آپ پاکستان کے کسی بھی سیاستدان کا نام لے لیں تو وہ چینی کی صنعت کا سرمایہ دار نکلے گا۔ اس دھندے میں پنجاب کا تقریباًہر سیاسی خاندان، لاہور کے شریفوں سے لے کر گجرات کے چودھریوں تک اور سرگودھا کے چیموں سے لے کر جہانگیر ترین تک شامل ہیں۔ یہاں ہمایوں اختر اور اس کے اہل خانہ کا نام مت بھولیں۔
مولانا سے چند سوال اور گذارشیں
آخر میں التجا ہے کہ اب جب آ پ دعا کریں تو کوشش کریں کہ دعا ہی ہو، کردار کشی، باعثِ دل آزاری اور مبالغہ آرائی نہ ہو۔
امریکہ میں گلوبل کشمیر کانفرنس کے اہم منتظم راجہ مظفر کے خاندان کو مظفرآباد میں ہراساں کیا جا رہا ہے
اس سے پہلے بھی امریکہ میں خوداختیاری جلاوطنی سے پہلے آزاد کشمیر میں ان کے قیام کے دوران را جہ مظفر پر قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں۔
اردگان کے خلاف بھوک ہڑتال کرنے والے ایک اور انقلابی گلوکار 297 دن بعد انتقال کر گئے
وہ اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ گروپ یوروم پر لگنے والی پابندی اور اس کے ارکان کی مسلسل گرفتاریوں کے خلاف احتجاجاً بھوک ہڑتال پر تھے۔
ترک جینز کرونا کو مات نہ دے سکے: لاکھ سے زائد مریض، 2600 اموات
ترکوں نے حفظانِ صحت کی جو عادات اپنا رکھی ہیں اس کی وجہ سے ترکی کرونا سے محفوظ رہے گا۔