2022ء کے آخر اور 2023ء میں دائیں اور انتہائی دائیں بازو نے خاص طور پر یورپ میں نئی انتخابی فتوحات حاصل کی ہیں۔ سویڈن میں ماڈریٹ پارٹی (دائیں بازو) اور سویڈن ڈیموکریٹس (انتہائی دائیں بازو) نے سوشل ڈیموکریسی کے بعد دوسرے اور تیسرے نمبر پر آ کر حکومتی اتحاد بنایا۔ فن لینڈ میں نیشنل کولیشن (دائیں بازو) نے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی جس کی حمایت پارٹی آف فنز (انتہائی دائیں بازو) نے کی اور دو دیگر قوتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔
Month: 2024 مارچ
حکمرانی کا بحران
گہرے بحران کے حالات میں بر سر اقتدار آنے والی بورژوا اور مفاہمت پسند سیاسی قیادتیں کٹوتیوں کی انتہائی جارحانہ پالیسیاں لاگو کرتی ہیں جن سے محنت کش عوام کا معیار زندگی ناقابل برداشت سطح تک گر جاتا ہے۔ اس سے روایتی بورژوا پارٹیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہیں، نئے رجحانات کی تشکیل اوران کے اقتدار کے تیر رفتار تجربے ہو رہے ہیں، حکومتیں گر رہی ہیں اور نئے سیاسی عوامل ابھر رہے ہیں۔
لینن کی میراث کے 100 سال
21 جنوری 1924ء کو ولادیمیر لینن کی وفات کے بعد سو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ کارل مارکس کی طرح لینن کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جن پر بہتان تراشی کے معاملے میں حکمران طبقات نے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ نہ صرف قدامت پرست بلکہ لبرل بھی اسے ایک خونی آمر اور اقتدار کے بھوکے غاصب کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جبکہ بائیں بازو کے بیشتر اصلاح پسند‘ حکمران طبقات کے یہ الزامات دہرانے کے ساتھ ساتھ لینن کو ایک ایسے بے صبرے مہم جو کے طور پر پیش کرتے ہیں جس نے اکتوبر 1917ء میں ریاستی اقتدار تک اپنی پارٹی کی رہنمائی کر کے انقلابِ روس کے نامیاتی عمل کو سبوتاژ کر دیا۔ ایسے میں بالشویک انقلاب کو بھی مزدوروں اور کسان سپاہیوں کی ایک عوامی (لیکن منظم) سرکشی کی بجائے ایک ’کُو‘ (اقتدار پر قبضے کی گروہی سازش) کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر کبھی اکتوبر کی سرکشی میں بڑے پیمانے کی عوامی حمایت اور عمل دخل کو تسلیم بھی کیا جاتا ہے تو اسے ایک ’’قبل از وقت‘‘ (پری میچور) اقدام قرار دیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لینن کی پالیسیوں نے ہی آخر کار سٹالنزم کا راستہ ہموار کیا۔
کارل مارکس: جس کے نظریات نے نئی دنیا کا تصور دیا
سنئے پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے سیکرٹری جنرل قمر الزماں خان کا تجزیہ و تبصرہ بعنوان ’کارل مارکس: جس کے نظریات نے نئی دنیا کا تصور دیا!‘
فلسطین: عالمی صورتحال کا کلیدی پہلو
سامراجی طاقتیں اسرائیل کی حمایت کرتی ہیں۔ امریکہ اس حمایت میں پیش پیش ہے اور ساتھ ہی اس فسطائی نیتن یاہو پر کنٹرول ر کھنے کی کوشش بھی کر رہا ہے جس نے غزہ پر بمباری جاری رکھتے ہوئے جنوبی لبنان پر بھی حملہ کیا ہے اور بحران کو باقی ماندہ مشرق وسطیٰ تک پھیلاتا جا رہا ہے۔حالیہ تنازعے سے قبل ہی اسرائیل میں عدالتی اصلاحات کے سوال پر ایک گہری تقسیم پائی جا رہی تھی اور مسلح تصادم ختم ہونے پر نیتن یاہو کے اقتدار میں رہنے کا امکان کم ہی ہے۔
دریاؤں کا عالمی دن اور کراچی کا ملیر دریا
ہر سال14مارچ دنیا میں دریاؤں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ دریاؤں اورندیوں کی زندہ حیثیت تسلیم کی گئی ہے اور ان کے حفاظت کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ندیوں کی بدولت دریاؤں کا جنم ہوتا ہے اور اگر ندیاں باقی نہ رہیں تو دریا بھی ختم ہو جائیں گے۔ آج دنیا ندیوں اور دریاؤں کو زندہ حیثیت سے نظام کائنات کا اہم ستون تسلیم کر چکی ہے۔ مگر افسوس کہ آج کراچی کو آکسیجن مہیا کرنے والے ملیر کو زندگی کی علامت دینے والی ملیر ندی کو سرکار کی سرپرستی میں موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔
کلونیل ازم: 120 سالہ انگریز دور میں 31 قحط پڑے، 2 ہزار سال میں 17
گو کلونیل ازم سے قبل ہندوستان میں کوئی جمہوریت نہ تھی، لیکن جان لیوا قحط کم ہی پڑے۔ مغلیہ دور میں شائد ہی قحط پڑا ہوجس نے لاکھوں تو کیا ہزاروں لوگوں کی جان لے لی ہو۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اکبر سے لے کر اورنگزیب تک، مغلیہ عہد میں غذائی اجناس کی برآمد پر پابندی تھی، قیمتوں پر نظر رکھی جاتی تھی جبکہ خشک سالی کے ادوار میں مفت خوراک بانٹی جاتی تھی جس کے لئے غلہ ذخیرہ کیا جاتا تھا۔ اورنگرزیب کے عہد میں خشک سالی نے لگ بھگ دو سال کے لئے سلطنت کو گھیر لیا۔ اورنگزیب نے سرکاری خزانے کے منہ کھول دئے۔ غریبوں کو تو مفت خوراک فراہم کی گئی(یہ اس حکمران کا ذکر ہے جسے بعض افراد کی جانب سے مغلیہ سلطنت کے زوال کا سبب بھی قرار دیا جا تاہے)۔
آسکرز میں سیاست
ٹھیک ہے، یقینا اس سب کا بنیادی مقصد پیسہ ہے۔ امریکی فلمیں عالمی فلمی منڈی اور آسکرز پر حاوی ہیں۔ اکیڈمی آف موشن پکچر آرٹس اینڈ سائنسز کی جانب سے پیش کیے جانے والے ایوارڈز صنعت میں مالی اور فنکارانہ کامیابی کے عروج کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اکیلے ’باربی‘نے ایک ایسی صنعت میں تقریباً 1.5 ارب ڈالر کمائے، جو سینکڑوں ارب ڈالر کماتی ہے۔ پھر یہ فیشن کے بارے میں بھی ہے،جب خواتین ریڈ کارپٹ پر اپنے شاندار گاؤن دکھاتی ہیں اورجب مرد اپنے ایک جیسے ٹیکسیڈوزمیں پینگوئن کی طرح پریڈ کرتے ہیں۔ تاہم رواں سال پہلے سے زیادہ یہ تقریب نہ صرف ایک شاندار تماشا تھی، بلکہ خاص طور پر ایک سیاسی تقریب بھی تھی۔
یوکرائن جنگ کے دو سال
2022ء میں شروع ہونے والی یوکرائن جنگ سامراجی کشیدگی کا مرکز (Epicenter) تھی۔ دو سال بعد آج یہ لڑائی تعطل کا شکار ہو چکی ہے۔ یوکرائنی دارالحکومت کیؤ پر قبضہ کرنے اور وہاں ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے کے ابتدائی منصوبے میں ناکامی کے بعد پیوٹن روس کی سرحد سے متصل یوکرائن کے 20 فیصد علاقے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں مصروف ہے۔ یوکرائن کی مزاحمت، جو روسی پیش قدمی روکنے میں کامیاب رہی تھی، وقت گزرنے کے ساتھ اب کمزور پڑ رہی ہے اور زیلنسکی حکومت کی جانب سے بہت زیادہ تشہیر کردہ جوابی حملے میں بھی کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
فنکاروں نے امریکی فوج کی سرپرستی میں منعقدہ فیسٹیول کا بائیکاٹ کر دیا
70سے زائد امریکی فنکاروں اور پینلسٹوں نے ساؤتھ بائی ساؤتھ ویسٹ(ایس ایکس ایس ڈبلیو) فیسٹیول کا بائیکاٹ کیا ہے۔ فنکاروں نے یہ فیصلہ امریکی فوج کے فیسٹیول کے ساتھ تعلقات منظر عام پر آنے اور یہ واضح ہونے کے بعد کیا کہ امریکی فوج اس فیسٹیول کی سرپرستی کر رہی ہے۔ فنکاروں نے فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر امریکی فوج کی سرپرستی میں منعقدہ فیسٹیول میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا۔