مزید پڑھیں...

خیبرپختونخوا: عوامی ایکشن کمیٹی قائم، بجلی تین روپے فی یونٹ حاصل کرنے کےلئے جدوجہد کا اعلان

اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت ہوگی ،جس میں وکلاء برادری ، سرکاری سکولوں کے اساتذہ ، تاجر برادری ، عوامی اور سماجی شخصیات کے ساتھ ساتھ ایک آل پارٹیز کانفرنس بلانے پر پر بھی اجلاس میں شریکِ تمام اراکین متفق تھے ۔عوامی ایکشن کمیٹی پختونخوا ایک مکمل سیاسی و۔ غیر جماتی تنظیم ہوگی اور پختونخوا کا ہر فرد اس کمیٹی کا ممبر ہوگا ۔

جموں کشمیر: ریاستی حکومت کیخلاف مقامی حکومتوں کا احتجاجی دھرنا

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں نئے مالی سال کے آغاز پریکم جولائی کو مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندگان نے دارالحکومت مظفرآباد کی طرف لانگ مارچ کیا اور اسمبلی سیکرٹریٹ کے سامنے احتجاجی دھرنا دے دیا۔ یہ احتجاجی دھرنا یکم جولائی سے مسلسل جاری ہے۔ بلدیاتی نمائندے شدید گرمی میں دن بھی اس احتجاجی دھرنے میں گزارتے ہیں اور راتیں بھی اسی دھرنے میں گزر رہی ہیں۔ یہ بلدیاتی نمائندے لوکل گورنمنٹ(مقامی حکومت) کیلئے مختص بجٹ منتخب نمائندوں کو تفویض کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ناروے اور نظامِ طاغوت (حصہ اول)

حال ہی میں سما چینل پر مکالمہ نامی پروگرام میں لکھاری خلیل اُلرحمن قمر اور ٹی وی پریچر ساحل عدیم کو عورتوں کو درپیش مسائل پر رائے زنی کے لیے بلایاگیا۔ میں پروگرام کے آغاز میں یہ سوچتا رہا کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ بات تو عورتوں کے حقوق پر ہورہی ہے،مگر اسٹوڈیو میں بطورِ مہمان صرف مرد حضرات کو ہی بلایا گیا ہے۔ بعد میں یہ بھی دیکھا کہ پبلک میں بیٹھی ایک باشعور و تعلیم یافتہ لڑکی کو تنقیدی تبصرہ اور کڑوے سوال کرنے پر اس طرح جھڑک کر حقارت سے گھورا گیا کہ جیسے کوئی جاہل و بدکردار جاگیردار اپنے زرخرید غلام کی تذلیل کر رہا ہو، مگر ازبا عبداللہ نامی اس بہادر لڑکی نے95 فیصد عورتوں کو جاہل کہنے والے دونوں ادھیڑ عمر مردوں کو نہایت ہی بردباری و معلمانہ انداز میں جواب دیتے ہوئے کھولتے تیل کے کڑھائے میں پھینک دیا۔

اردو ڈرامہ اور عصری مسائل

جب سماج کی بنیاد یعنی معاشی نظام متروک ہو جائیں،تو وہ محض معیشت میں ہی اپنا اظہار نہیں کرتے، بل کہ سماج کا ہر ایک ادارہ تعفن پھیلانے لگتا ہے۔ تاریخ کا دھارا گویا روک سا جاتا ہے۔ تہذیب و ثقافت زوال پذیر ہونا شروع ہو جاتیہیں۔ رشتوں کا تقدس اپنی اہمیت کھو دیتا ہے۔ سماج میں ایک بے گانگی جنم لیتی ہے، جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے لا تعلق کر دیتی ہے۔ یہ انسانوں کو مجبور کر دیتی ہے کہ ان کے پاس انفرادی بقا کے انتخاب کے علاوہ کوئی دوسرا رستہ نہیں بچتا، اور انفرادی کام یابی ہی سب سے بڑا مقصد حیات بن جاتی ہے۔ چاہے اس کی قیمت اپنوں کے خون سے ہی کیوں نا چکانی پڑے۔

’ماضی کے متاثرین تاحال بے یارومدد گار ہیں، نیا ملٹری آپریشن کوئی قبول نہیں کرے گا‘

ماضی کے آپریشنوں کی وجہ سے خیبر ایجنسی میں تیرہ اور دیگر علاقوں سے بے دخل کئے گئے لوگ آج بھی آئی ڈی پی کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بحالی کے نام پر ہر خاندان کو ایک ایک خیمہ اور کچھ راشن دے کر تباہ حال علاقوں میں جبری طور پر بھیجا جا رہا ہے۔ بنوں میں آج بھی لوگ اپنی ہی سرزمین پر مہاجرین کی زندگی گزار رہے ہیں۔ماضی کے تلخ تجربات کے ساتھ ساتھ پی ٹی ایم نے لوگوں میں شعور بیدار کر دیا ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ آپریشن ہوگا تو سب سے زیادہ نقصان ان کا ہوگا۔ جب تک گڈ اور بیڈ طالبان کی پالیسی ختم نہیں ہوتی، یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ بائیں بازو کو اس آپریشن کے خلاف کراچی، لاہور ، راولپنڈی جیسے شہروں میں احتجاج منظم کرکے آپریشن کی مخالفت کرنی چاہیے۔

بجلی کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافے کیخلاف تاجروں کا ملک گیر احتجاج

احتجاج کی یہ کال آل پاکستان انجمن تاجران نے دے رکھی تھی۔ اسلام آباد میں تاجروں نے آبپارہ چوک میں احتجاجی مظاہرہ کیا اور مرکزی سڑک بلاک کر دی۔ حکومت کی جانب سے ٹیکسوں میں اضافے اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کے لیے اسلام آباد بھر کی مختلف مارکیٹوں کے رہنماؤں کی قیادت میں تاجروں کے قافلے پہنچنے پر پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔

کمرشل فلموں میں تشدد اور سیکس کی بھرمار کیوں ہوتی ہے؟

جب دسویں جماعت میں غالب کو پڑھایا جاتا ہے توعام طور پر اکثر طالب علم غالب کو بورنگ، مشکل،دقیق، اور نا قابل فہم سمجھ کر یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ غالب کو اتنا بڑا شاعر کیوں مانا جاتا ہے۔ شیکسپئیر سے گوئٹے تک، ہر بڑے نام بارے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سکول کے طالب علم کو یہ سب بڑے ادیب عام طور پربے معنی سے لگیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا taste ابھی cultivate نہیں ہوا، ادبی ذوق ابھی پروان نہیں چڑھا۔ ادبی ذوق تب ہی پروان چڑھے گا جب مطالعہ وسیع ہو گا۔ زبان، فلسفے،تاریخ اور سیاست کے علاوہ حالات حاظرہ پر گہری نظر ہو گی۔ گویا سیاق و سباق پر دسترس ہو گی۔

انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی انتظامیہ کا طلبہ پر جبر

طالبات کیلئے ہاسٹل میں سیٹ ملنا ہی بہت مشکل ہو چکا ہے۔ طالبات کیلئے مختص ہاسٹلز میں کل 5ہزار طالبات رہائش پذیر ہیں، باقی12ہزار سے زائد طالبات پرائیویٹ ہاسٹلز میں رہائش رکھنے پر مجبورہیں۔ یونیورسٹی میں زیر تعلیم کل15ہزار طلبہ میں سے محض5ہزار کو ہاسٹل کی سہولت میسر ہے، باقی 10ہزار پرائیویٹ ہاسٹلز میں رہنے پر مجبور ہیں۔

اسلامک یونیورسٹی: فیس وصول کرنے کے باوجود طلبہ کیلئے ہاسٹل کے دروازے بند

انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ہر سال ”فال سمسٹر“ میں طلبہ سے ہاسٹل کی فیس زیادہ وصول کی جاتی ہے جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ”سمر سمسٹر“ کی فیس بھی اس میں شامل ہے، لیکن طلبا و طالبات کو سمر سمسٹر میں ہاسٹل میں رہنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ جو طلبہ سمر سمسٹر میں انٹرن شپ کے لیے یونیورسٹی میں رکنا چاہتے ہیں وہ فیس ادائیگی کے باوجود یونیورسٹی کی رہائش استعمال نہیں کر سکتے۔