پاکستان


زرعی زمین چین، سعودی عرب کو لیز پر دینا پاکستان پر ’بین الاقوامی قبضہ‘ ہے

اس ضمن میں پاکستان کو محتاط رہنا چاہیے اور اپنی زرعی زمین کا زیادہ حصہ غیر ملکی سرمایہ کاروں یا کمپنیوں کو لیز پر نہیں دینا چاہیے۔ بصورتِ دیگر، اس کا انجام ایک جدید دور کی کالونی کے طور پر ہو سکتا ہے جسے خوراک کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

عدم اعتماد جمہوریت کو نہیں ہائبرڈ نظام کو دھچکا ہے

یہ سارے واقعات عوام کے اجتماعی شعور میں محفوظ رہیں گے۔ ممکن ہے کسی انقلابی متبادل کے ابھرنے تک وہ ایک اور دھوکا کھائیں یا سیاست سے بیگانگی میں وقتی طور پر اضافہ ہو لیکن وہ ہائبرڈ سانپوں کے ہاتھوں دوبارہ ڈسے نہیں جائیں گے۔ یہی اصل عدم اعتماد ہے۔ عوامی عدم اعتماد۔

تحریک انصاف اب ووٹ وننگ عنصر نہیں رہی!

ہمیں اپوزیشن سے بھی کوئی بہتری کی امید نہیں۔ ان کی معاشی پالیسیاں بھی عمران خان طرز کی ہیں۔ ایک سے جان چھوٹے گی تو دوسرے میں پھنس جائے گی۔ اس صورتحال میں ہمیں اپنا متبادل بیانیہ تعمیر کرنا ہے۔
لاہور میں 27 مارچ کو بائیں بازو کی ایک نئی سیاسی طاقت کے ظہور کا دن ہے۔ آئیے! آپ بھی مہنگائی، بے روزگاری، تعلیمی بحران اور ماحولیاتی تباہی کے خلاف آواز بلند کرنے میں ہمارا ساتھ دیں۔ اتوار 27 مارچ ناصر باغ لاہور کے عظیم اجتماع میں شرکت کریں۔

جمہوریت کا تقاضہ ہے: طلبہ یونینز بحال کی جائیں

رواں سال میں ان تنظیموں نے ملک کے بڑے شہروں میں احتجاجی جلوس اور لاہور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنے کا پرگرام دیا۔ چنانچہ پروگرام کے عین مطابق9 فروری سے دھرنا جاری ہے جو کہ پنجاب حکومت سے بامعنی مذاکرات اور مطالبات منوا کر ختم ہو گا۔

مسکان خان بارے بعض بے اصول لبرل حضرات کو ایک سوشلسٹ جواب

لباس ان کا ذاتی مسئلہ ہے۔ ریاست، خاندان، ادارے یا کسی فسطائی گروہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کے جسم پر لباس مسلط کرے۔ یہ حق نہ ہندوستان کی ریاست کے پاس ہے نہ فرانس کی ریاست کے پاس۔ نہ کمال اتاترک یا شاہ ایران کو حق ہے کہ حجاب پر پابندی لگائیں نہ طالبان اور سعودی و ایرانی آمریت کو حق حاصل ہے کہ زبردستی برقعے لاگو کریں۔ اگر آپ مسکان خان کے حق کی حمایت نہیں کر سکتے تو طالبان کی مخالفت کس منہ سے کریں گے؟ بقول سہیل وڑائچ کیا یہ کھلا تضاد نہیں کہ طالبان غلط مگر ہندو طالبان ٹھیک؟

بلاول بھٹو یہ سب کیسے کر لیتے ہو سائیں

دو سال قبل مودی سرکار نے لداخ کو ریاست جموں کشمیر سے کاٹ کر ہماری ریاست کے ساتھ جو ظلم کیا، وہی ظلم بلالو بھٹو کے نانا نے گلگت بلتستان کی شکل میں کیا تھا۔ افسوس پاکستانی حکمران طبقے کے ہاں نہ شرم ہوتی ہے،نہ حیا۔

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں 31 سال بعد بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں اور خدشات

گو بلدیاتی اداروں کی فعالی سے مسائل کا حل ممکن نہیں ہے، تاہم نوجوان سیاسی کارکنان کو عوامی مسائل کو سمجھنے اور ان کے حل کیلئے جدوجہد کے راستے متعین کرنے کا موقع ضرور ملے گا اور سیاست میں شہریوں کی مداخلت نئے امکانات ضرور روشن کریگی۔