Month: 2021 نومبر


تاریخ بدلنے والا ایک شرمناک معاہدہ

ایک معاہدہ ابھی تحریک انصاف نے تحریک ِلبیک پاکستان (ٹی ایل پی) سے کیا جس کی تفصیل سامنے نہیں آئی۔ ایک معاہدہ مسلم لیگ حکومت نے نومبر 2017ء میں کیا تھا اسی تحریک لبیک سے۔ اس وقت جو راقم نے لکھا وہ تقریباً آج کے معاہدے سے مماثلت رکھتا ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ کشمیر میں دو بڑے ہاتھیوں سے نجات حاصل کی جائے: واشنگٹن میں امریکی رہنماؤں نے کشمیریوں کے حقوق کی حمائت کر دی

جب دو بڑے ہاتھی آپس میں لڑ جائیں تو نقصان گھا س کا ہوتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ کشمیری دو بڑے ہاتھیوں سے نجا ت حاصل کر کے مکمل آزادی کا اعلان کریں۔

دہشت گرد معاف ہو سکتے ہیں، امن عالم کی بات کرنیوالا علی وزیر نہیں!

سرمایہ دارانہ جمہوریت سرمائے کی آمریت ہے جس میں محنت کشوں کے پاس محض حکمران طبقے کے کسی ایک دھڑے کو ووٹ دینے کا حق ہوتا ہے۔ انتخابات لڑنے کے لیے واحد اہلیت جو درکار ہے، وہ دولت ہے یا کسی دولت مند فرد یا طاقت ور ادارے کی سرپرستی ہے۔ انتخابات جیتنے کے لیے حکمران طبقے کے مقرر کردہ اس معیار پر محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کا پورا اترنا تقریباً نا ممکن ہے۔ اگر محکوم طبقے کی تحریک کے نتیجے میں عوامی حمایت کی بنیاد پر محنت کشوں کے نمائندے پارلیمنٹ میں جاتے ہیں تو حکمران طبقہ ان انقلابی نمائندوں کو برداشت نہیں کر سکتا ہے۔ محنت کشوں کے رہنماؤں کی آواز کو دبانے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔

زہرہ فونا سے ملا علی کردستانی تک

ان دنوں ملا علی کردستانی پاکستان کے دورے پر ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی نے انہیں دعوت پر بلایا تو بعض سیاسی شخصیات نے ان کے ساتھ فوٹو سیشن کئے۔ سوشل میڈیا پر ویڈیوز شیئر کی جا رہی ہیں جن سے ثابت کیا جا رہا ہے کہ ملا علی کردستانی دم درود سے گونگے بہرے لوگوں کا علاج کر دیتے ہیں۔ زہرہ فونا بھی ایسا ہی ایک کردار تھیں جو انڈونیشیا سے پاکستان آئیں۔ زہرہ فونہ بارے ایک مضمون تقریباً دس سال پہلے ہفت روزہ وئیو پوائنٹ میں شائع ہوئے۔ اس کا اردو ترجمہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مضمون نگار بصیر نوید معروف سیاسی کارکن ہیں۔ ان کا تعلق کراچی سے ہے۔

’پی ٹی آئی کے 40 ارکان پارلیمان عمران خان کو چھوڑ چکے ہیں‘

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جوائنٹ سیشن میں 40 اراکین کی شرکت نہ کرنے کی معلومات وزیر اعظم کو خفیہ اداروں کی حمایت کے بغیر ہی حاصل کرنا پڑی، انہوں نے ڈپٹی کمشنروں اور ڈی پی اوز کو ممبران قومی اسمبلی اور سینیٹرز کے پاس بھیج کر جوائنٹ سیشن میں شرکت کی یقین دہانی لینے کی کوشش کی، جس پر 40 اراکین نے اس طریقہ کو اپنی توہین قرار دیتے ہوئے سیشن میں شرکت سے انکار کا پیغام بھجوایا۔