ایک معاہدہ ابھی تحریک انصاف نے تحریک ِلبیک پاکستان (ٹی ایل پی) سے کیا جس کی تفصیل سامنے نہیں آئی۔ ایک معاہدہ مسلم لیگ حکومت نے نومبر 2017ء میں کیا تھا اسی تحریک لبیک سے۔ اس وقت جو راقم نے لکھا وہ تقریباً آج کے معاہدے سے مماثلت رکھتا ہے۔

ایک معاہدہ ابھی تحریک انصاف نے تحریک ِلبیک پاکستان (ٹی ایل پی) سے کیا جس کی تفصیل سامنے نہیں آئی۔ ایک معاہدہ مسلم لیگ حکومت نے نومبر 2017ء میں کیا تھا اسی تحریک لبیک سے۔ اس وقت جو راقم نے لکھا وہ تقریباً آج کے معاہدے سے مماثلت رکھتا ہے۔
جب دو بڑے ہاتھی آپس میں لڑ جائیں تو نقصان گھا س کا ہوتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ کشمیری دو بڑے ہاتھیوں سے نجا ت حاصل کر کے مکمل آزادی کا اعلان کریں۔
طلبہ کو انقلابی نظریات سے لیس کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کا سرگرم حصہ بنایا جائے۔
میں طلوع ہو رہا ہوں، تو غروب ہونے والا
سرمایہ دارانہ جمہوریت سرمائے کی آمریت ہے جس میں محنت کشوں کے پاس محض حکمران طبقے کے کسی ایک دھڑے کو ووٹ دینے کا حق ہوتا ہے۔ انتخابات لڑنے کے لیے واحد اہلیت جو درکار ہے، وہ دولت ہے یا کسی دولت مند فرد یا طاقت ور ادارے کی سرپرستی ہے۔ انتخابات جیتنے کے لیے حکمران طبقے کے مقرر کردہ اس معیار پر محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کا پورا اترنا تقریباً نا ممکن ہے۔ اگر محکوم طبقے کی تحریک کے نتیجے میں عوامی حمایت کی بنیاد پر محنت کشوں کے نمائندے پارلیمنٹ میں جاتے ہیں تو حکمران طبقہ ان انقلابی نمائندوں کو برداشت نہیں کر سکتا ہے۔ محنت کشوں کے رہنماؤں کی آواز کو دبانے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔
طلبہ کو اپنے بنیادی حق کے حصول اور اپنے تعلیمی، سیاسی و سماجی فیصلے کرنے کا اختیار حاصل کرنے کیلئے خود ہی میدان عمل میں آنا ہو گا۔
اقوام متحدہ کے اداروں کا کہنا ہے کہ تقریباً 22.8 ملین افراد، جو افغانستان کی 39 ملین آبادی کے نصف سے بھی زیادہ بنتے ہیں، کو خوراک کے شدید عدم تحفظ کا سامنا ہے۔
ان دنوں ملا علی کردستانی پاکستان کے دورے پر ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی نے انہیں دعوت پر بلایا تو بعض سیاسی شخصیات نے ان کے ساتھ فوٹو سیشن کئے۔ سوشل میڈیا پر ویڈیوز شیئر کی جا رہی ہیں جن سے ثابت کیا جا رہا ہے کہ ملا علی کردستانی دم درود سے گونگے بہرے لوگوں کا علاج کر دیتے ہیں۔ زہرہ فونا بھی ایسا ہی ایک کردار تھیں جو انڈونیشیا سے پاکستان آئیں۔ زہرہ فونہ بارے ایک مضمون تقریباً دس سال پہلے ہفت روزہ وئیو پوائنٹ میں شائع ہوئے۔ اس کا اردو ترجمہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مضمون نگار بصیر نوید معروف سیاسی کارکن ہیں۔ ان کا تعلق کراچی سے ہے۔
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جوائنٹ سیشن میں 40 اراکین کی شرکت نہ کرنے کی معلومات وزیر اعظم کو خفیہ اداروں کی حمایت کے بغیر ہی حاصل کرنا پڑی، انہوں نے ڈپٹی کمشنروں اور ڈی پی اوز کو ممبران قومی اسمبلی اور سینیٹرز کے پاس بھیج کر جوائنٹ سیشن میں شرکت کی یقین دہانی لینے کی کوشش کی، جس پر 40 اراکین نے اس طریقہ کو اپنی توہین قرار دیتے ہوئے سیشن میں شرکت سے انکار کا پیغام بھجوایا۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی جس میں پٹرولیم مصنوعات، اشیا خورونوش اور زندگی بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں ہونیو الے ہوشربا اضافے کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی۔