ریسٹ ہاوس ہجیرہ میں این ایس کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار میں طلبا ء و طالبات اور خواتین نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔سیمینار میں نظامت کے فرائض عباسپور یونٹ کی جنرل سیکریٹری صائمہ بتول نے ادا کیے جبکہ جنرل سیکرٹری ڈگری کالج یونٹ کبریٰ یوسف، این ایس ایف ضلع پونچھ کی سیکریٹری نشر و اشاعت سمیہ بتول، آرگنائزر ضلع پونچھ سیف اللہ، جنرل سیکرٹری سٹی یونٹ ہجیرہ احتشام صابر، جرنلسٹ رؤف خان، زوناش نئیر، عاصمہ بتول،اقصیٰ اسحاق، ڈپٹی چیف آرگنائزر ارسلان شانی و دیگر رہنماوں نے خطاب کیا۔
Month: 2024 مارچ
نسل انسان کو تباہی کے دہانے پر لے جاتا عالمی سرمایہ داری کا بحران
ہر گزرتے دن کے ساتھ بحران مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ 1930ء کی دہائی کے ‘گریٹ ڈپریشن’ کے بعد2008ء کا بحران سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا بحران ہے جو اب تک مسلسل جاری ہے۔ معیشت، سیاست، ماحولیات، صحت، نظریات اور عالمی غلبے کے بحرانات یکجا ہو کر ایک دوسرے کی شدت میں اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ بحران کی جڑ شرح منافع کی گراوٹ کا رجحان ہے۔ اس لیے سرمایہ داری کے پاس استحصال، جبر اور بربادی کو بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود و قیود میں رہتے ہوئے اس بحران کا کوئی حل ممکن ہی نہیں ہے۔
’پنک ٹیکس‘ صنفی جبر کا ایک رخ
ایک خاتون،جو سرکاری ٹیچر ہیں،جب ان سے اس بارے میں بات کی گئی تو انکا کہنا تھا کہ وہ اس ٹیکس کا نام پہلی بار سن رہی ہیں،لیکن انہوں نے ہمیشہ اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ بچیوں کی اشیا ء بچوں کی نسبت مہنگی ہیں۔اس لیے وہ اپنی بیٹی کے لیے بھی ویسی اشیا ء لیتی ہیں جو وہ بیٹے کے لیے خریدتی ہیں،جن میں زیادہ تر کپڑے شرٹس،جینز، کھلونے اور دیگر بچوں کی اشیا ء شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو اس بارے میں مکمل آگاہی ہونی چاہیے۔اس پہ سیمینارز کا انعقاد کیا جانا چاہیے۔
کٹھنائیوں سے برسرپیکار عورت
پاکستان میں جاری سیاسی عدم استحکام اور معاشی ابتری،روپے کی قدر میں گراوٹ نے اس خطے کے گھرانوں کو مزید برباد کر دیا ہے۔ اس بربادی میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والی تعداد پھر خواتین کی ہے۔ خواتین پر گھر سنبھالنے کی ذمہ داری کے ساتھ بچوں کی دیکھ بھال،سودا سلف لانے سے لے کر کسی بیماری کی صورت میں ہسپتالوں میں مشکل حالات سے گزرنابھی معمول کی بات ہے۔پسماندگی اور رجعت میں خواتین کو اکیلے ہی بقا کی جنگ لڑنا پڑتی ہے۔ کہنے کو تو یہ باتیں آسان لگتی ہیں لیکن جب کسی عورت کو ان مشکلات سے گزرنا پڑھتا ہے تو باقی زندگی کی ہر ایک خواہش،ہر ایک خوشی چھن جاتی ہے۔
8 مارچ اور بلوچستان سے جموں کشمیر تک مزاحمتی تحریکوں میں خواتین کا کردار
2008کے مالیاتی بحران کے بعدسرمایہ داری کے گھر(وہ ممالک جنہوں نے سامراجیت کے ذریعے 200 سال تک تیسری دنیا کی دولت لوٹی)میں معاشی زوال پذیری کے باعث مزدوروں پر کام کے اوقات کار میں اضافے اور پینشن اصطلاحات جیسے حملے کیے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف وہاں خود ایسی حکومتیں بن رہی ہیں جن کے پاس الیکشن جیتنے کے لیے سوائے مہاجرین کے خلاف قانون سازی کے غیر انسانی نعروں کے کچھ نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ ان نعروں کی وجہ سے الیکشن جیت رہے ہیں۔جرمنی،برطانیہ،فرانس اور ارجنٹائن کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ امریکہ میں ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار کے لیے صاف ہوتا راستہ بھی اس متروکیت کو واضع کر رہا ہے۔
پاکستان میں پہلا مخصوص سوشلسٹ فیمنسٹ رسالہ ’’ناریواد‘‘ آن لائن لانچ کیا جا رہا ہے
روزنامہ جدوجہد سے بات کرتے ہوئے عصمت شاہ جہان نے کہا کہ ناریواد (فیمنزم) ایک آن لائن میگزین ہے، جس کا مقصد سماج، سیاست، فن اور ثقافت کا سوشلسٹ و فیمنسٹ نقطہء نظر سے تجزیہ فراہم کرنا ہے۔ ہم ایک غیر کاروباری (نان کمرشل) آن لائن میگزین ہیں، جسے ’ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ‘ (پاکستان میں قائم ایک آزاد سوشلسٹ فیمنسٹ تنظیم) شائع کرتی رہی ہے۔ ناریواد کو دسمبر 2018ء میں لانچ کیا گیا تھا۔ پہلے یہ ہارڈ کاپی کی شکل میں شائع ہوتا تھا، اور اس کے اجزاء ریاستی زبان اردو کے علاوہ پاکستان کے پانچ قومی زبانوں بشمول بلوچی، پشتو، سندھی، سرائیکی، اور پنجابی میں چھپتے تھے، مگر اب ہم اِسے دو زبانوں میں آن لائن شائع کر رہے ہیں، اور دونوں حصوں کے اجزاء یعنی مواد ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
ہیلتھ کارڈ سکیم: نجی ہسپتال انسانی زندگیوں سے کھیل کر دولت بنا نے میں مصروف
سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ صحت کارڈ پروگرام کے تحت پنجاب بھر کے نجی ہسپتالوں میں 80فیصد بچوں کی پیدائش کیلئے سی سیکشن کا طریقہ کار اپنایا گیا، جس کی وجہ سے ان نجی ہسپتالوں کو ٹیکس دہندگان کے خرچ پر بہت بڑا مالی فائدہ حاصل ہوا۔اس سکیم کے تحت نجی ہسپتالوں نے یہ تمام تر نجی فائدہ ماں اور بچے کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر حاصل کیا۔
عورت مارچ 2024ء: شیڈول اور منشور جاری کر دیئے گئے
1)۔ سندھ حکومت سندھ ہوم بیسڈ ورکرز ایکٹ2018کو فوری طور پر نافذ کرے اور ہوم بیسٹ ورکرز کیلئے سوشل سکیورٹی، ہیلتھ اور ای او بی آئی فوائد مرتب کئے جائیں۔
2)۔ ریاستی حمایت یافتہ جبری مذہب کی تبدیلی جیسے گھناؤنے صنفی تشدد کو ختم کیا جائے، جس سے مذہبی اقلیتی برادریوں کی لڑکیوں اور خواتین کو گزرنا پڑتا ہے۔
3)۔ جمہوریت کو بحال کیا جائے اور غیر جمہوری اقدامات کا تدارک کیا جائے۔
4)۔ خواتین، ٹرانس جینڈر، خواجہ سرا اور نان بائنری لوگوں کیلئے سیف ہاؤسز اور ہاسٹلز قائم کئے جائیں، تاکہ وہ پدرانہ تشدد سے بچ سکیں، جس کا انہیں اکثر گھر میں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ طلبہ اور تنخواہ دار پیشہ ور افراد کیلئے محفوظ ہاسٹلز کی سہولیات فراہم کی جائیں۔
5)۔ خواجہ سرا برادری کے خلاف نفرت انگیز مہم کو روکا جائے۔ ٹرانس جینڈر پرسنز (تحفظ حقوق) ایکٹ2018کو اصل شکل میں برقرار رکھا جائے۔ آن لائن بڑھتی ہوئی نفرت انگیز مہم کے خلاف کارروائی کی جائے اور پسماندہ کمیونٹی کے ارکان کو ڈرانے اور قتل کرنے کیلئے استعمال ہونے والے انتہائی تشدد کا راستہ روکا جائے۔
X بندی کا ایک ہفتہ: سوشل میڈیا کی طاقت کا شور مچانے والے کہاں ہیں؟
ایکس (ٹوئٹر) پر پابندی لگے ہوئے ہفتے سے زیادہ ہو گیا ہے۔ یہ پابندی قابل مذمت ہے۔ دم توڑتی جمہوریت کے لئے اس قسم کی پابندیوں کا مطلب ہے کہ جمہوریت کے کفن دفن کا وقت اور قریب آ گیا ہے۔
ماضی میں کئی مہینوں تک اس ملک میں یو ٹیوب پر بھی پابندی لگی رہی ہے۔ میڈیا کے کسی کونے کھدرے میں یہ خبر بھی شائع ہوئی تھی کہ تازہ پابندی کے لئے سافٹ وئیر کسی امریکی کمپنی نے فراہم کیا ہے۔
سعادت حسن منٹو زندہ ہوتے تو چچا سام کو نیا خط ضرور لکھتے کہ چچا سام پہلے سوشل میڈیا پلیٹ فارم بیچتا ہے،پھر ان کو روکنے کے لئے سافٹ وئیر بنا کر بیچتا ہے۔ تیسری دنیا خوشی خوشی دونوں خرید لیتی ہے۔
لاہور: غزہ پر اسرائیلی جارحیت کیخلاف احتجاجی ریلی، ملک بھر سے سینکڑوں کارکنان کی شرکت
پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپین، جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن، ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ اور پیپلز ریولوشنری فرنٹ کے زیر اہتمام غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف لاہور میں احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا گیا۔
اتوار کی شام یہ احتجاجی ریلی ملک کی بڑی سوشلسٹ تنظیم ’طبقاتی جدوجہد‘ کی 41ویں سالانہ کانگریس کے اختتام پر منعقد کی گئی تھی۔ ایوان اقبال ہال میں منعقدہ دو روزہ کانگریس میں پاکستان کے چاروں صوبوں اور زیر انتظام جموں کشمیر و گلگت بلتستان سے سینکڑوں مرد و خواتین نے شرکت کی۔ کانگریس میں انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ کے رہنما خصوصی طور پر شرکت کےلئے ارجنٹینا سے آئے تھے۔
کانگریس کے اختتام پر ایوان اقبال سے چیئرنگ کراس تک احتجاجی ریلی منعقد کی گئی۔ جس میں سینکڑوں افراد شریک تھے۔
شرکا ریلی متحدہ، آزاد اور سوشلسٹ فلسطین کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ شرکا ریلی نے فلسطین پر جاری اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی اور فلسطینیوں کا قتل عام فوری بند کرنے کا مطالبہ کیا۔