روشنی کچھ تو میسر ہو درِ ز نداں میں
مزید پڑھیں...
کورونا وائرس لیبارٹری میں تیار ہوا؟ سائنسدانوں نے یہ خیال مسترد کر دیا
انہوں نے کہا کہ یہ وائرس قدرتی ارتقا کا نتیجہ ہے اور انسانوں کے تیار کرنے کی قیاس آرائیوں کا اب خاتمہ ہوجانا چاہیے۔
کرونا پر مولانا طارق جمیل کو خط
آپ کے منہ سے میں نے کبھی سرمایہ داروں کے خلاف یا مزدوروں کے حق میں کوئی ویڈیو اور آڈیو بیان جاری ہوتے نہیں دیکھا۔ آپ ہی کیا، آج تک کبھی کسی مذہبی جماعت یا مولوی نے یہ کہہ کر چندہ لینے سے انکار نہیں کیا کہ چندے کے پیسے استحصال، ناجائز کمائی یادھونس دھاندلی سے بنائے گئے ہیں۔
بے شرم حکمرانو! عوام کو اجتماعی دعائیں نہیں، اجتماعی دوائیں چاہئیں
ایک فوری دعا تو یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان کے بیرونی قرضے معاف ہو جائیں۔
کرونا وائرس وبا: سرمایہ داری کی تباہ کاریوں کے خلاف کیسے لڑا جائے؟
٭ تمام نجی ہسپتالوں، ٹیسٹ لیبارٹریزاور فارما سوٹیکل کمپنیوں کو فوری طور پر نیشنلائز کرتے ہوئے معیاری علاج فراہم کیا جائے۔
٭ کرونا وائرس کے ٹیسٹس اور اس کی روک تھام کے لئے تمام اشیا کی عوام تک مفت رسائی کو یقینی بنایا جائے۔
٭ صحت کے شعبے سے وابستہ افراد یعنی ڈاکٹرز، نرسزاور پیرامیڈیکل سٹاف کو حفاظتی کٹس فراہم کی جائیں نیز ان کے اوقات کار کو کم کر کے روزانہ 6 گھنٹے کیا جائے اور سٹاف کی کمی کے لئے فوری طور پر تمام میڈیکل ڈگری ہولڈز کو روزگار دیا جائے اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔
٭ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کی ادائیگی کو فوری طور پر روکتے ہوئے قرضوں کی ضبطگی کے لئے فوری طور پر اقدامات کئے جائیں۔
نظام کا جبر
بقول کامریڈ لال خان ”سچے جذبوں کی قسم جیت ہماری ہوگی“۔
کرونا وائرس کوئی مذاق یا سازش نہیں!
ہمیں ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے اس وائرس بارے تمام مصدقہ معلومات کو سمجھنے اور ان کے مطابق زندگی بسر کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ہر بیماری کا علاج اکثر اوقات مذہبی دعاؤں سے کرنے کی عادت سی ہو گئی ہے اوراسے کلچر بنا لیا گیا ہے، کرونا وائرس بارے بھی ایسا ہی کیا جا رہا ہے۔ ضروری ہے کہ اس بارے عالمی ادارہ صحت کی تجویز کردہ باتوں پر عمل کیا جائے۔
آخری سانس تک لال
لال خان کو عالمی تاریخ اور سیاسی و سماجی تحریکوں کا وسیع علم تھا۔
ڈاکٹر مبشر حسن نے جو مجھے کہا…
پاکستان میں انہوں نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے جو صنعتی، اقتصادی اور معاشی اصلاحات کیں، وہ اصلاحات ہی ذوالفقار علی بھٹو کی حکمرانی کی یادگار ہیں، جن میں پاسپورٹ کو عام آدمی کو فراہم کرنے سے لے کر کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق دینا تک شامل ہیں۔ انہوں نے ملٹی پارٹی سسٹم میں رہ کر پاکستان کو عملاً سوشلسٹ اصلاحات سے متعارف کروایا جو کہ مذاق نہیں۔ اس کی مختصر تفصیل اُن کی کتاب The Mirage of Power میں پڑھی جاسکتی ہے۔
سرمایہ داری گہرے بحران کی طرف تیزی سے گامزن
صرف محنت کش طبقات کی متحدہ جدوجہد ہی بے حس حکمرانوں کو ان کے گندے ارادوں سے باز رکھ سکتی ہے۔