Month: 2022 نومبر


انسان کا مستقبل

فطرت اور ریاست کے درمیان معیشت حائل ہوتی ہے۔ تکنیکی سائنس نے انسان کو آگ، پانی، مٹی، ہوا جیسے قدیم عناصر کے جبر سے تو نجات دلائی ہے لیکن اسے خود انسان کے جبر کے تابع کر دیا ہے۔ انسان فطرت کا غلام تو نہیں رہا لیکن مشین کا غلام بن گیا۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کے طلب اور رسد (منڈی) کا غلام ہو گیا۔ موجودہ عالمی بحران المناک انداز میں واضح کرتا ہے کہ انسان، جو سمندر کی تہوں میں غوطہ زن ہے، جو فضا کی بالا ترین پرتوں میں اڑ رہا ہے، جو غیرمرعی شعاعوں کے ذریعے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں بات کر رہا ہے…فطرت پہ بڑے تکبر اور بے باکی سے حکمرانی کرنے والا یہی انسان ابھی تک اپنی ہی معیشت کی اندھی قوتوں کا غلام ہے۔ ہمارے عہد کا تاریخی فریضہ یہی ہے کہ منڈی کے بے قابو کھیل کو معقول منصوبہ بندی کے ساتھ تبدیل کیا جائے۔

مصر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیخلاف جیل میں بھوک ہڑتال

یہ ہڑتال انہوں نے اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس کے مصر میں انعقاد کے موقع کی تھی، تاکہ دنیا بھر کے رہنماؤں کی مصر میں موجودگی کی وجہ سے مصر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب توجہ مبذول کروائی جا سکے۔

یوکرین کی موسمیاتی کارکن کو روسی احتجاج پر ’COP27‘ سے معطل کر دیا گیا

وہ ایک ایسی تنظیم کی بانی اور ڈائریکٹر ہیں جو روسی تیل اور گیس پر مکمل طور پر پابندی کا مطالبہ کرتی ہے۔ رومانکو کہتی ہیں کہ ”یہ بہت واضح ہے کہ فوسل فیول پوری دنیا میں آمریتوں کو فنڈ دیتے ہیں۔ ہم اپنی بولنے کی آزادی اور عوامی اجتماع میں شرکت کی آزادی کو ایسے لوگوں کا مقابلہ کرنے کیلئے استعمال کرنا چاہتے تھے، جو ایسے ملک سے آئے تھے، جو کھلی جنگ میں ہے اور اپنے لوگوں کو تباہ کر رہا ہے۔“

فوسل فیول اور یورینیم خرید کر یوکرین جنگ کو فنڈ کیا جا رہا ہے: جلا وطن روسی ماہر ماحولیات

’یوکرین میں روسی جنگ، خاص طور پر نیوکلیئر پاور پلانٹ پر روسی قبضے کو ایک انتباہ کے طور پر کام کرنا چاہیے کہ فوری طور پر جوہری توانائی کی بجائے قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے تبدیل کیا جائے اور فوسل فیول پر انحصار بند کر دیاجائے۔‘

’جنرل چشتی نے بینظیر سے معافی مانگی: 77ء میں وہ بھٹو خاندان کو قتل کرنے کے حامی تھے‘

انکا کہنا تھا کہ ایکس سروس مین تنظیم کے بنیادی رکن اور پیٹرن ان چیف لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض علی چشتی 1977ء میں مارشل لا لگانے والے جرنیلوں میں شامل تھے۔ ضیا دور میں وہ باوردی وزیر رہے اور 4 وزارتیں بھی چلاتے رہے۔

علی وزیر کو جیل میں رکھنے کیلئے سب ’ایک پیج‘ پر: زر ضمانت 29 لاکھ ہو گیا

علی وزیر اس وقت ایک ایسا انقلابی استعارہ بن چکے ہیں کہ جس کے خلاف حکمران طبقات کے سارے نمائندگان تمام تر آپسی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ’ایک پیج‘ پر نظر آ رہے ہیں۔ بظاہر پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف ایک دوسرے پر تنقید کے تیر برسانے میں پیش پیش ہیں۔ دونوں جماعتوں کی قیادتوں کی سیاست ہی ایک دوسرے کے خلاف نظر آتی ہے مگر علی وزیر کے معاملے پر دونوں جماعتوں کی حکومتیں باہمی تعاون اور ہم آہنگی کا بے مثال مظاہرہ کر رہی ہیں۔

مارشل لا لگے گا نہ اگلی حکومت عمران خان بنا سکیں گے

اگر عمران خان کی حکومت ہابرڈ رجیم تھی تو موجودہ سیٹ اپ ہائبرڈ رجیم پلس ہے۔ اگر عمران خان محنت کش طبقے کے دشمن اور نیو لبرل معیشت لاگو کرنے والے سیاستدان تھے تو موجودہ حکومت بھی اسی ڈگر پر گامزن ہے۔ اگر عمران خان نے بیرونی قرضوں سے عوام کی کمر توڑ دی تو شہباز شریف بھی کچھ کم نہیں۔ علی وزیر تب بھی جیل میں تھے، اب بھی رہائی ممکن نہیں ہو رہی۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ تب بھی حل نہیں ہو رہا تھا، اب بھی وہیں ہے۔ مہنگائی تب بھی کمر توڑ رہی تھی،اب بھی۔ اب تو برداشت سے باہر ہو گئی ہے۔

علی وزیر: 5 ویں مقدمہ میں بھی ضمانت مگر چھٹے مقدمہ میں گرفتاری

رکن قومی اسمبلی کو رہائی کیلئے قانونی جنگ لڑتے ہوئے 2 سال مکمل ہونے کو ہیں، تاہم قانونی موشگافیوں کو استعمال کرتے ہوئے اور ایک منظم ریاستی منصوبہ بندی کے تحت انہیں قید رکھا جا رہا ہے۔ علی وزیر کا کیس پاکستان کے عدالتی نظام کی بوسیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔